کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 399
سے غافل ہوں ....؟ اللہ کی قسم! ایسا ممکن ہی نہیں۔اس لیے یقیناً حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی اس نمازِ عصر میں حاضر ہوں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا فرمائی ہوگی۔
اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز باجماعت سے کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے تھے،تو جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے اور ان کی گود میں سر رکھنے لگے،اس وقت حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کیوں نہ فرمایا کہ ابھی میری نماز عصر رہتی ہے؟ جبکہ حدیث شریف میں آتا ہے کہ جس کی نماز عصر فوت ہوگئی گویا اس نے اپنے اہل و عیال اور مال و دولت کو تباہ و برباد کرلیا۔[1]
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر کسے فرمانِ نبوی کا پاس و لحاظ تھا؟اگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کرتے کہ ابھی میری نماز عصر رہتی ہے تو کیا ایسا ممکن تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انھیں نمازِ عصر سے روکتے اور کہتے کہ بعد میں پڑھ لینا؟ناممکن ....قطعاً ناممکن۔
آپ ان احادیث کا مطالعہ کریں،جن میں وحی الٰہی کے نزول کا ذکر ہے،کوئی وحی آپ کو اتنی طویل نہیں ملے گی کہ جس کا دورانیہ دو سے تین گھنٹے ہو۔جبکہ نماز عصر کا کم سے کم دورانیہ بھی سردیوں میں دو گھنٹے سے زائد ہوتا ہے۔اب کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اتنی دیر حضرت علی کی گود میں سر رکھ کر سوئے رہے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل ہوتی رہی؟
اگر لمحے بھر کے لیے مان بھی لیا جائے کہ ایسا ہی ہوا تھا تو سوال یہ ہے کہ غزوہ خندق کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے کچھ اصحاب کو مشرکین نے اس حد تک مشغول رکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز عصر قضا ہوگئی۔سورج غروب ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اصحاب رضی اللہ عنہم نے پہلے نماز عصر ادا فرمائی اور پھر نماز مغرب۔اگر حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے لیے سورج واپس آسکتا تھا تو خود
[1] صحیح بخاری،کتاب مواقیت الصلوٰۃ،باب اثم من فاتتہ العصر،حدیث: ۵۵۲۔