کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 398
’’حضرت علی رضی اللہ عنہ کی گود میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سر رکھے ہوئے محواستراحت تھے اور وحی نازل ہو رہی تھی۔اس میں اتنی تاخیر ہوئی کہ سورج غروب ہوگیا اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کی نماز عصر رہ گئی۔اس پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی کہ اے اللہ! سورج بھی تیرا مطیع ہے اور علی بھی تیرے نبی کی اطاعت میں تھا۔اس کی نماز عصر رہ گئی ہے۔ اس لیے سورج کو حکم فرما کہ وہ واپس لوٹ آئے۔چنانچہ سورج واپس آیا،اور حضرت علی رضی اللہ عنہ نے نماز عصر ادا کی۔‘‘[1] ہمارے ہاں دین کے نام پر جو بھی کہہ دیا جائے،اسے بلا تحقیق ماننے کا رواج ہے۔دوسرے یہ کہ قصہ گو واعظین کے لیے اس قسم کے بے سروپا قصوں میں لوگوں کے دلوں کو لبھانے کے لیے بہت سامان ہوتا ہے،اس لیے لوگ سوچے سمجھے بغیر اس قسم کی باتوں کو سچ مان لیتے ہیں اور سر دھنتے ہیں۔حالانکہ معمولی سی عقل رکھنے والا بھی سرسری سا غورو فکر کرنے کے بعد اس قصے کو بے سروپا سمجھ لے گا۔سنداً تو یہ جھوٹے قصوں میں ہے ہی،درایتاً بھی اس کا موضوع ہونا واضح ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ اس روز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا فرمائی تھی؟ بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عصر ادا فرمائی تو اس وقت سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کہاں تھے؟ کیا وہ جماعت سے غیر حاضر تھے؟ یہ تو ہوسکتا ہے کہ روپے پیسے کے لالچ میں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے والے قصہ گو نماز باجماعت سے غافل ہوں لیکن حضرت علی رضی اللہ عنہ نماز
[1] مختلف کتب میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی نماز کے لیے سورج کے واپس آنے کی یہ روایات آئی ہیں اور ساری کی ساری غیر ثابت شدہ اور موضوع روایات ہیں۔ان روایات کے متن اور اسانید پر مفصل بحث کے لیے ملاحظہ فرمائیے: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم از امام ابن کثیر جلد ۳،ص: ۳۸۱ تا ۳۹۲۔