کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 392
باقی رہے گا،جو بڑی شان اور عزت والا ہے۔‘‘
۷۶۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے غسل وفات کے وقت صحابہ پر نیند کا غلبہ ہونا:
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داعی اجل کو لبیک کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوگئی اور تجہیز و تکفین کے مراحل شروع ہوئے تو اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل کس طرح دیا جائے۔ام المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا:
’’جب انہوں (صحابہ) نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دینے کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا: اللہ کی قسم! ہمیں تو معلوم نہیں کہ جس طرح غسل کے وقت ہم اپنے فوت شدگان کے کپڑے اتار دیتے ہیں،کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کپڑے اتار کر غسل دیں یا کپڑوں (لباس) سمیت؟ پس جب ان میں اختلاف پیدا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے ان سب پر نیند طاری کر دی اور وہ سب سوگئے۔پھر گھر کے ایک کونے سے کسی نے بات کی لیکن انہیں پتا نہ چل سکا کہ وہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے لباس سمیت غسل دو۔
یہ سن کر وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آئے اور انہیں ان کی قمیض سمیت غسل دیا۔وہ قمیض کے اوپر پانی ڈالتے اور آپ کے جسد اطہر کو قمیض کے اوپر سے ملتے تھے (یعنی جسم کو براہ راست ہاتھ نہیں لگاتے تھے) اور سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ جس بات کا مجھے بعد میں پتا چلا،اگر پہلے علم ہو جاتا تو آپ کی ازواج مطہرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیتیں۔‘‘[1]
سبحان اللہ! رب العزت کو اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ستر پوشی کا کس قدر خیال تھا کہ ان کی وفات کے بعد بھی اجنبی نگاہوں سے انہیں اسی طرح محفوظ رکھا۔بات تقابل کی
[1] سنن ابو داؤد،کتاب الجنائز،باب فی ستر المیت عند غسلہ،حدیث: ۳۱۴۱۔یہ حدیث حسن ہے۔