کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 390
یہی آیت مبارکہ تھی۔(گویا وہ ایک دوسرے کو اس آیت سے تسلی و تشفی دے رہے تھے) حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے کہ جب میں نے یہ آیت مبارکہ سنی تو میں سکتے میں آ گیا۔میرے قدم بوجھل ہو گئے۔مجھے ایسے لگا کہ میں اپنے قدموں پر کھڑا نہیں رہ سکوں گا۔میں وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔[1]
حدیث مبارکہ سے معلوم ہونے والی کچھ باتیں
۱۔ یہ حدیث شریف تصحیح عقائد میں بہت اہمیت رکھتی ہے۔صحابہ کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بارے میں کیا عقیدہ تھا،اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔
۲۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ اصحاب رسول میں سب سے نمایاں حیثیت رکھتے تھے۔ان کے فولادی عزم اور مضبوط اعصاب کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ ایسا جری اور دلیر انسان غم کی شدت میں حوصلہ ہار گیا تھا،اس وقت بھی حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نہ صرف حواس قائم تھے بلکہ انہوں نے رب العزت کی خصوصی توفیق سے امت کی عظیم راہنمائی فرمائی۔
۳۔ اصحاب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا عقیدہ رکھتے تھے۔اس کے لیے ان کے پاس قرآن کریم سے دلائل موجود تھے۔
۴۔ اس لیے وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ رکھنا بے ادبی یا گستاخی نہیں بلکہ یہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم والا عقیدہ ہے۔
۵۔ اگر کوئی شخص شدت غلو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا عقیدہ نہیں رکھتا،وہ سمجھتا ہے کہ حضور تو فوت ہی نہیں ہوئے تھے،اس کا عقیدہ اس کو مبارک لیکن وہ جان
[1] صحیح بخاری،کتاب الجنائز،باب الدخول علی المیت …،حدیث: ۱۲۴۱،۱۲۴۲،کتاب المغازی،باب مرض النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم و وفاتہ،حدیث: ۴۴۵۴۔