کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 385
فنا ہونا مخلوق کا مقدر ہے۔اسی قانون قدرت کے تحت انبیاء کرام علیہم السلام بھی اپنے اپنے مقررہ وقت پر وفات پا گئے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس مرض میں وفات پائی،اس کا آغاز بھی رات کے وقت ہوا۔امام ابن کثیر لکھتے ہیں : ’’میرے علم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آغاز مرض اس طرح ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدھی رات ’’بقیع الغرقد‘‘ تشریف لے گئے۔ان کے لیے استغفار و مغفرت کی دعا کی۔پھر واپس چلے آئے۔صبح ہوئی تو اس روز آپ کو تکلیف شروع ہو گئی۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام ابو مویہجہ نے بیان کیا: ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آدھی رات کو اٹھا کر فرمایا اے ابو مویہجہ! مجھے حکم ہوا ہے کہ میں اس (بقیع) قبرستان والوں کے لیے مغفرت کی دعا کروں۔میرے ہمراہ چلو۔چنانچہ میں آپ کے ہمراہ ہو لیا۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے درمیان پہنچ گئے تو آپ نے فرمایا: ’’السلام علیکم اے قبرستان والو!‘‘ ’’تمہارے حالات بہتر اور خوش گوار ہوں،زندہ لوگوں کی نسبت کہ دنیا میں تاریک رات کے ٹکڑوں اور گوشوں کی طرح فتنے یکے بعد دیگرے آ رہے ہیں۔دوسرا پہلے سے بدتر ہو گا۔‘‘ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے مخاطب کر کے فرمایا: ’’مجھے دنیا کے خزانوں کی چابیاں دی گئیں۔اس میں سدا رہنے اور پھر جنت میں جانے کا اختیار دیا گیا کہ موت اور حیات جاوداں میں سے جس کو چاہوں پسند کر لوں۔‘‘ ابو مویہجہ نے کہا میں نے گزارش کی: میرے ماں باپ آپ پر صدقے! دنیا کے خزانوں کی چابیاں،سدا رہنے اور جنت کو پسند فرما لیجیے۔