کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 383
خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اذیت ناک سفر کی سنگینی ان الفاظ میں بیان فرمائی:
’’ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہاری قوم (قریش) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا۔یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا۔لیکن اس نے میری دعوت کو رد کر دیا۔میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا۔پھر جب میں قرن الثعالب پہنچا،تب مجھے کچھ ہوش آیا۔میں نے سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کیے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبریل اس میں موجود ہیں۔انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں سن چکا اور جو انہوں نے ردّ کیا ہے،وہ بھی سن چکا۔آپ کے پاس اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے،آپ ان کے بارے میں جو چاہیں،اس کا اسے حکم دے دیں۔اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی،اس نے مجھے سلام کیا اور کہا اے محمد! پھر اس نے بھی وہی بات کہی،آپ جو چاہیں (اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں ؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو اکیلے اللہ کی
عبادت کرے گی اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔‘‘[1]
[1] صحیح بخاری،کتاب بدء الخلق،باب اذا قال احدکم آمین …،حدیث: ۳۲۳۱۔