کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 382
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) آگے تھے۔آپ منہ کے بل گر پڑے۔میں اپنا پتھر پھینک کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑا۔آپ آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے۔میں نے پوچھا کیا بات ہے؟ تو آپ نے کھڑے ہو کر اپنا تہ بند پہن لیا اور فرمایا: ((اِنِّیْ نُہِیْتُ أَنْ اَمْشِ عُرْیَانًا)) ’’مجھے برہنہ ہو کر چلنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں آپ کے اس مقولے کو لوگوں سے چھپاتا تھا،مبادا وہ آپ کو دیوانہ کہیں۔‘‘[1] اللہ رب العزت کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پردگی منظور ہی نہیں تھی۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اجنبی نگاہوں سے محفوظ رکھنے کا خصوصی اہتمام فرمایا۔ ۷۰۔طائف میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زخموں کی شدت سے بے ہوش ہو جانا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی زندگی میں سفر طائف کو نمایاں اہمیت حاصل ہے۔اس سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سخت اذیت اور پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔آپ دس روز تک طائف میں رہے۔مکہ مکرمہ سے پیدل طائف کی طرف روانہ ہوئے۔آپ کے آزاد کردہ غلام زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ آپ کے ہمراہ تھے۔بنو ثقیف کے اوباش آپ کے پیچھے ہوتے،وہ تالیاں بجاتے،گالیاں دیتے اور آپ پر پتھر پھینکتے۔ایک روز تو انہوں نے ایذا رسانی کی حد کر دی۔صاحبِ ’’رحمۃ للعالمین‘‘ قاضی سلیمان منصور پوری لکھتے ہیں : ’’اس مقام پر ایک دفعہ وعظ کرتے ہوئے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اتنی چوٹیں لگیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم بے ہوش ہو کر گر پڑے۔زید رضی اللہ عنہ نے ان کو اپنی پیٹھ پر اٹھایا،آبادی سے باہر لے گئے،پانی کے چھینٹے دینے سے ہوش آیا۔‘‘[2]
[1] سیرت النبی لابن کثیر،ج ۱،ص: ۱۷۳۔ [2] رحمۃ للعالمین،ج ۱،ص: ۹۳۔