کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 33
ہوتی ہے جس میں ایک وبا نازل ہوتی ہے۔وہ جس برتن کو ڈھانپا نہ گیا ہو اور جس مشکیزے پر ڈوری نہ باندھی گئی ہو،اس کے پاس سے گزرتی ہے،اس میں داخل ہو جاتی ہے۔‘‘[1]
اللہ رب العزت ہی بہتر جانتے ہیں کہ وہ وبا کیسی ہوتی ہوگی۔ہمارا ایمان تو ’’سن لیا اور مان لیا ‘‘ تک محدود ہے۔ہم تو صرف حکم کے پابند ہیں۔نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خطرے سے امت کو خبردار کیا،اب یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنی حفاظت کریں نہ کہ دل میں تشکیک کو جگہ دیں۔اس لیے کہ انسان کا علم بہت ہی ناقص اور قلیل ہے۔تاریخ عالم میں آپ کو ایک سے بڑھ کر ایک صاحب علم و حکمت ملے گا کہ جس کو اللہ تعالیٰ نے قابل رشک فراست و بصیرت سے نوازا لیکن کیا ماضی کا انسان اکیسویں صدی کی ترقی کے بارے میں تصور بھی کرسکتا تھا؟ جی نہیں۔جب ان مادی ذرائع کے بارے میں ترقی کے مدارج حضرتِ انسان کی عقل سے ماورا ہیں تو روحانیات سے متعلقہ مسائل میں تشکیک کا شکار کیوں ہوا جائے؟ ایمان تو اس کا نام ہے کہ بن دیکھے مان لیا جائے اور اپنی معمولی سی عقل پر گھمنڈ نہ کیا جائے۔ویسے بھی کیا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ہی شک کے لیے رہ گئی ہیں ؟
۱۱۔شیطان سے حفاظت کی تدبیر:
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جب تم رات کو سونے لگو تو مشکیزوں کے منہ باندھ دو اور دروازوں کو بند کر دو اور کھانے پینے (کی چیزوں ) کو ڈھانپ دو کیونکہ شیطان (رات کو) آتا ہے۔پس اگر وہ دروازے کو بند نہ پائے تو دروازے میں (یعنی گھر میں ) داخل ہو جاتا ہے۔اور (پھر اندر آکر) اگر وہ مشکیزے کو بندھا ہوا
[1] سلسلہ احادیث صحیحہ،جلد: ۱،حدیث: ۳۵۵۔