کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 313
’’بدر کے دن مقداد رضی اللہ عنہ کے سوا ہم میں کوئی دوسرا گھڑ سوار نہ تھا۔اور میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو ہم میں سے (اس رات) جو بھی تھا،وہ سو رہا تھا سوائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک ایک درخت کے نیچے نماز پڑھتے رہے اور اس میں گریہ زاری کرتے رہے۔‘‘[1]
میرے ماں باپ حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام پر قربان۔آپ کو امت کا کتنا درد تھا۔ہم گناہگاروں کا آپ کو کس قدر خیال تھا۔آپ مناجات فرما رہے تھے کہ اللہ! اگر یہ مٹھی بھر موحدین بھی نہ رہے تو زمین پر تیرا نام لیوا کوئی نہیں رہے گا۔
ذرا ان لمحات کا تصور تو کیجیے۔وہ کیسا منظر ہوگا جب میرے آقا و مولیٰ صلی اللہ علیہ وسلم بارگاہِ الٰہی میں نظریں جھکائے حالت قیام میں ہوں گے،ہچکیوں میں آپ قرآن کریم کی تلاوت فرما رہے ہوں گے اور لعل و جواہر سے قیمتی آنسو آپ کی چشم تر سے موتیوں کی طرح ٹپک رہے ہوں گے۔پھر جب آپ رکوع فرما رہے ہوں گے،پھر جب آپ دنیا وما فیہا سے قیمتی پیشانی مبارک زمین پر رکھے ہوئے ہوں گے اور اپنے رب سے اشکوں کی زبان میں گفتگو فرما رہے ہوں گے....وہ کیسا دل سوز منظر ہوگا۔میں اپنے آقا صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کہ ساری رات آپ لمحہ بھر کے لیے نہیں سوئے۔شاید سیرت مطہرہ میں ایسی اور کوئی رات نہیں آئی کہ جو آنسوؤں اور سسکیوں میں بسی ہو اور رکوع و سجود میں گزری ہو۔
اسی رات کی ہی تو بات ہے کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ردائے مبارک زمین پر گر پڑی تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اسے اٹھایا اور عرض کیا میرے آقا و مولیٰ! میرے حضور! بس کیجیے۔آپ نے مانگنے کی حد کر دی ہے۔خاطر جمع رکھیے۔آپ کا رب آپ کو تنہا
[1] صحیح ابن خزیمہ،کتاب الصلوٰۃ،باب الدلیل علی ان البکاء فی الصلوٰۃ ....حدیث: ۸۹۹۔یہ حدیث صحیح ہے۔