کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 29
کی ہمت نصیب فرمائے۔
اگرچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ نماز عشاء کے بعد غیر ضروری گفتگو سے گریز کرتے ہوئے سو جانا چاہیے۔لیکن اتنی گنجائش ہے کہ انسان اگر کسی با مقصد اور علمی مصروفیت میں مشغول ہو تو وہ سونے میں تاخیر کرسکتا ہے۔[1] جیسا کہ امام بخاری نے باب قائم کیا ہے کہ سونے سے پہلے رات کے وقت علمی باتیں کرنا جائز ہے اور اس کے تحت وہ درج ذیل احادیث لائے ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’آخر عمر میں (ایک دفعہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عشاء کی نماز پڑھائی۔جب آپ نے سلام پھیرا تو کھڑے ہوگئے اور فرمایا: کہ تمہاری آج کی رات وہ ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔‘‘[2]
’’حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے اپنی خالہ میمونہ بنت الحارث رضی اللہ عنہا زوجہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں ایک رات گزاری اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (اس روز ) ان کی رات میں ان ہی کے گھر تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشا کی نماز مسجد میں پڑھی۔پھر گھر تشریف لائے اور چار رکعت (نماز نفل) پڑھ کر آپ سو گئے۔پھر اٹھے اور فرمایا کہ (ابھی تک یہ) لڑکا سو رہا ہے یا اس جیسا لفظ فرمایا۔پھر آپ (نماز پڑھنے) کھڑے ہوگئے اور میں (بھی وضو کرکے) آپ کی بائیں جانب کھڑا ہوگیا۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دائیں جانب (کھڑا) کرلیا۔تب
[1] لیکن یہ تاخیر اس حد تک نہیں ہونی چاہیے کہ باجماعت نماز فجر ہی ضائع ہونے کا امکان پیدا ہو جائے۔
[2] صحیح بخاری،کتاب العلم،باب السمر فی العلم،حدیث: ۱۱۶۔