کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 273
۲۵۔غار ثور میں :
نبی مکرم رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے اہم ترین واقعات میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سفر ہجرت ہے۔اس سفر میں سیّدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ آپ کے رفیق تھے۔کتب حدیث و سیرت میں سفر ہجرت کی تفصیلات بیان ہوئی ہیں۔ان میں چند ایسے واقعات بھی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آرام فرمانے اور سونے کا ذکر ہوا ہے۔آئندہ سطور میں اختصار کے ساتھ اس مبارک سفر میں پیش آمدہ واقعات بیان کیے جا رہے ہیں۔
جب حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی معیت میں حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے تو مکہ مکرمہ سے باہر نکلنے کے بعد آپ ایک لمبا چکر کاٹ کر مدینہ طیبہ کی طرف جانے والے راستے پر ہوئے۔جبل ثور کی چوٹی پر ایک غار تھا جو ان دو کی منزل تھی کہ جن کے تیسرے اللہ رب العالمین تھے۔ذرا تصور کی نگاہ سے وہ منظر تو دیکھیے کہ اس غار تک پہنچنے کے دوران سید البشر صلی اللہ علیہ وسلم کے قدوم میمنت لزوم زخمی ہوگئے تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اس کائنات کے ملجاء و مأوی(علیہ السلام)کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور پہاڑ کی چوٹی پر پہنچ کر دم لیا۔[1]
[1] نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سفر ہجرت سے منسوب یہ غار آج بھی جبل ثور کی چوٹی پر ہے۔اگر واقعتا یہی غار وہ مقدس مقام ہے کہ جہاں حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے رفیق سفر کے ہمراہ مشرکین مکہ سے چھپے ہوئے تھے تو ناتواں اور نحیف حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی ہمت اور عزم قابل ستائش تھی۔آج اکیلا آدمی اس بلند و بالا پہاڑ پر چڑھنے میں دقت محسوس کرتا ہے حالانکہ لوگوں نے اپنی سہولت کے لیے پہاڑی راستے پر سیڑھیاں بھی بنالی ہیں۔اس کے باوجود لوگ عموماً ایک دو مرتبہ رک کر سانس درست کرتے ہیں۔پھر غار کی طرف اپنا سفر جاری رکھتے ہیں۔جبکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی عمر مبارک اس وقت تقریباً ۵۲ برس تھی اور انہوں نے اپنے کندھوں پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کو اٹھایا ہوا تھا اور پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ رہے تھے۔جو لوگ جبل ثور پر چڑھے ہوئے ہیں،وہ جان سکتے ہیں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کس قدر مشکل سے دوچار ہوئے ہوں گے۔لیکن محبت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم وہ پاکیزہ جذبہ ہے جو انسان کو دنیا کی بڑی سے بڑی مشکل کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ اور ہمت عطا کرتا ہے۔انہی اصحاب عزیمت کے لیے تو اقبال نے کہا ہے ؎
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی