کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 272
کے گھر کے باہر جمع ہونے لگے۔ یہ ان ظالموں کی تدبیر تھی اور دوسری طرف اللہ رب العزت نے اپنے محبوب علیہ الصلوٰۃ والسلام کی حفاظت کا یہ سامان فرمایا کہ آپ کو ہجرت کا حکم دے دیا۔یہ وہی رات تھی،جب مشرکین آپ کی جان لینے کے لیے آپ کے گھر کے باہر جمع تھے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نے ہدایت فرمائی کہ آج آپ اس بستر پر نہ سوئیں،جس پر عام طور پر سوتے ہیں۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میری سبز حضرمی چادر اوڑھ کر سو جاؤ۔دشمن تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا۔چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اس رات آپ کے بستر پر سوئے۔ پھر جب رسالت مأب صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر تشریف لائے تو آپ کے ہاتھوں میں مٹی تھی۔اس وقت ابوجہل کہہ رہا تھا: ’’محمد کا گمان ہے کہ اگر تم اس کا دین قبول کر لو تو عرب و عجم کے حکمران بن جاؤ گے۔پھر مرنے کے بعد تم زندہ ہو گے اور تمہیں باغات ملیں گے۔اگر تم اسلام قبول نہ کرو تو تم پر ہلاکت و فلاکت برپا ہو گی۔پھر تم مرنے کے بعد زندہ کیے جاؤ گے اور تمہارے لیے آگ ہو گی جس میں تم جلتے رہو گے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں میں یہ کہتا ہوں اور تو ان میں سے ایک ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی آنکھوں کو بند کر دیا۔وہ آپ کو دیکھتے نہ تھے اور آپ نے سورہ یٰسین کی ابتدائی نو آیات پڑھتے ہوئے ان کے سروں پر مٹی بکھیر دی اور سب حاضرین کے سروں پر مٹی ڈال کر آپ نے جہاں جانا تھا،چلے گئے۔‘‘[1] یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مدینہ طیبہ ہجرت فرما گئے۔
[1] ملاحظہ فرمائیے: سیرت النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم ابن کثیر: ۱/۴۵۲۔