کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 268
تو پھر بسم اللہ!
شرکائے مجلس نے بیک زبان اثبات میں جواب دیا اور اپنے عزم صمیم کا اظہار کیا۔اس موقع پر اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ جو پچھلے برس بھی بیعت کر چکے تھے،انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دست اقدس تھام لیا اور اپنے رفقاء سے مخاطب ہوئے:
دیکھو اہل یثرب!
ابھی رک جاؤ۔ہم اتنا طویل سفر طے کر کے آئے ہیں اور ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کے رسول ہیں۔انہیں اپنے ہمراہ لے جانے کا مطلب تم اچھی طرح سمجھتے ہو۔لڑائی بھی ہو گی اور قتل و غارت بھی۔مال جان کا شدید نقصان ہو گا۔اگر ہمت حوصلہ ہے تو انہیں لے چلو۔ورنہ ابھی معذرت کر لو۔اللہ کے ہاں یہ معذرت قبول ہو گی۔‘‘
لوگوں نے ایک بار پھر اپنے عزم و استقامت کا یقین دلایا تو سب سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعتِ جہاد کی۔پھر دیگر شرکاء باری باری آتے گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت ہوتے گئے۔یہ بیعت زندگی اور موت کی بیعت تھی۔جہاد کی بیعت تھی۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم رکاب رہنے کی بیعت تھی۔سمع و طاعت کی بیعت تھی۔اخلاص پر مبنی جب ایسی بیعت کی جائے تو اس کا عوض سوائے جنت کے اور کیا ہو سکتا ہے؟ رب العزت کی قسم اور کچھ بھی نہیں۔صرف اور صرف جنت۔[1]
تصور کی آنکھ سے ذرا سوچئے تو سہی!
[1] اس رحمت و برکت والی نشست کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: سیرت ابن ہشام: ۱/۴۳۸۔مسند امام احمد بن حنبل۔رحمۃ للعالمین،ص: ۱۰۳،۱۰۴۔سیرت انسائیکلوپیڈیا،جلد: ۴،ص: ۱۳۹۔۱۴۵۔الرحیق المختوم،ص: ۲۱۲۔۲۱۴۔