کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 267
ابھی بیعت نہیں ہوئی تھی۔گفتگو ہو رہی تھی۔ایک اور انصاری ابو الہیثم بن تیہان رضی اللہ عنہ نے اپنے خدشات کا اظہار کیا کہ ہمارے یہودیوں سے معاہدے ہیں۔آپ سے بیعت ہونے کے بعد ہم وہ سب موقوف کر رہے ہیں۔اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ اللہ آپ کو کامیابی دے اور آپ ہمیں چھوڑ کر واپس اپنے لوگوں میں آ جائیں ؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی بات سنی تو بے ساختہ مسکرا اٹھے اور وہ جواب دیا کہ تمام شرکاء بیعت کی روح بھی سرشار ہو گئی ہو گی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایسا کیسے ممکن ہے؟
اب تو ہم زندگی موت کے ساتھی ہیں۔ہمارا جینا مرنا اکٹھا ہے۔میں تم میں سے کوئی الگ نہیں اور تم تو میرے وجود کا حصہ ہو۔امن ہو یا جنگ تم مجھے اپنے ہم رکاب پاؤ گے۔‘‘[1]
اس کے بعد حاضرین مجلس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیعت ہونے ہی لگے کہ ایک صحابی حضرت عباس بن عبادہ رضی اللہ عنہ نے کہا:
’’ذرا ٹھہرو۔ایک بار پھر سوچ لو کہ تم کس بات پر بیعت کر رہے ہو؟ تم سارے عرب کو اپنا دشمن بنا لو گے۔ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ تمہارے بڑے مارے جائیں اور تمہارے مال برباد ہو جائیں اور تم سوچو کہ ان کا (یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا) ساتھ چھوڑ دیا جائے۔اگر اس وقت ایسا کرنا ہے تو ابھی وقت ہے،واپس پلٹ جاؤ۔ورنہ بعد میں ایسا کیا تو دنیا و آخرت کی رسوائی ہے اور اگر تم علی وجہ البصیرت سمجھتے ہو کہ تم اس بیعت کے عواقب و نتائج چاہے وہ کیسے ہی کیوں نہہوں،کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو
[1] ملاحظہ فرمایئے: سیرت النبی،ڈاکٹر علی محمد صلابی،جلد: ۱،ص: ۷۲۷-۷۳۳۔سیرت نبوی،دکتور مہدی رزق اللہ احمد،جلد: ۱،ص: ۴۰۶۔۴۱۳۔