کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 265
وہ لمحہ آ ہی گیا جب آپ تشریف لائے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ بن عبدالمطلب بھی تھے۔وہ اگرچہ ابھی تک اپنی قوم کے دین پر تھے مگر چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کے معاملے میں موجود رہیں اور ان کے لیے پختہ اطمینان حاصل کر لیں۔سب سے پہلے بات بھی انہی نے شروع کی۔‘‘[1] حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے اپنے بھتیجے کے لیے ایک بزرگ اور سرپرست کا کردار ادا کیا۔انہوں نے اس بیعت کے عواقب و نتائج سے مدینہ والوں کو اچھی طرح آگاہ کیا اور ان سے کہا کہ اگر تم بعد میں بے وفائی کرو گے تو بہتر ہے کہ ابھی اس ارادے سے کنارہ کش ہو جاؤ۔حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے مدینہ والوں سے کہا: ’’محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی مخالفت جیسی بھی ہے لیکن ان کی ایک حیثیت ہے۔ان کے مخالفین کے شر سے ہم نے انہیں بچائے رکھا ہوا ہے۔وہ اب تمہارے ساتھ جانا چاہتے ہیں اور تم انہیں اپنے ساتھ لے جانا چاہتے ہو تو پھر تم اچھی طرح جان لو کہ اس کے بعد کے حالات کیا ہوں گے۔اگر تو آنے والی مشکلات کا تم مقابلہ کر سکتے ہو،محمد کی حفاظت کر سکتے ہو تو اچھی بات ہے ورنہ اپنے ساتھ لے جانے کے بعد تم نے اس ذمہ داری سے اعراض کیا تو پھر ابھی سے رہنے دو۔وہ اپنے گھر،اپنے شہر میں زیادہ عزت کے ساتھ رہ رہے ہیں اور نسبتاً محفوظ ہیں۔‘‘ حضرت کعب کہتے ہیں کہ حضرت عباس کی اس گفتگو کے بعد ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ فرمائیے،آپ جو بات پسند فرماتے ہیں،کہیے۔آپ ہم سے جو عہد و پیمان لینا چاہتے ہیں،ہم حاضر ہیں۔
[1] الرحیق المختوم،ص: ۲۱۰،۲۱۱۔