کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 264
’’بالآخر وہ رات آ گئی جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات طے تھی۔ہمارے ساتھ ہمارے ایک معزّز سردار عبداللہ بن حرام بھی تھے (جو ابھی اسلام نہ لائے تھے) ہم نے انھیں اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ورنہ ہمارے ساتھ ہماری قوم کے جو مشرکین تھے ہم ان سے اپنا سارا معاملہ خفیہ رکھتے تھے ....مگر ہم نے عبداللہ بن حرام سے بات چیت کی اور کہا کہ اے ابو جابر! آپ ہمارے ایک معزّز اور شریف سربراہ ہیں اور ہم آپ کو آپ کی موجودہ حالت سے نکالنا چاہتے ہیں تاکہ آپ کل کلاں کو آگ کا ایندھن نہ بن جائیں۔اس کے بعد ہم نے انہیں اسلام کی دعوت دی اور بتلایا کہ آج عَقَبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہماری ملاقات طے ہے۔انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور ہمارے ساتھ عَقَبہ میں تشریف لے گئے اور نقیب بھی مقرر ہوئے۔‘‘
حضرت کعب رضی اللہ عنہ واقعے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ہم لوگ حسبِ دستور اس رات اپنی قوم کے ہمراہ اپنے ڈیروں میں سوئے،لیکن جب تہائی رات گزر گئی تو اپنے ڈیروں سے نکل نکل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طے شدہ مقام پر جا پہنچے۔ہم اس طرح چپکے چپکے دبک کر نکلتے تھے جیسے چڑیا گھونسلے سے سکڑ کر نکلتی ہے،یہاں تک کہ ہم سب عقبہ میں جمع ہو گئے۔ہماری کل تعداد پچھتّر تھی۔تہتر مرد اور دو عورتیں۔ایک امِّ عمارہ رضی اللہ عنہا نسیبہ بنت کعب تھیں جو قبلہ بنو مازن بن نجار سے تعلق رکھتی تھیں اور دوسری امِّ منیع رضی اللہ عنہا اسماء بنت عمرو تھیں جن کا تعلق قبیلہ بنو سلمہ سے تھا۔
’’ہم سب گھاٹی میں جمع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرنے لگے اور آخر