کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 263
سے دوچار کرتے۔جیسا کہ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کا واقعہ ہے۔اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے آئے مہمانوں کو ہدایت کی تھی کہ اس ملاقات کو خفیہ رکھنا۔کسی کو کانوں کان خبر نہ ہونے پائے۔طے پایا کہ ملاقات جمرۂ عقبہ کے پاس گھاٹی میں رات کے پچھلے پہر ہو گی۔مکہ والوں میں سے صرف تین افراد اس ملاقات سے آگاہ تھے۔ایک حضرت ابوبکر،دوسرے حضرت عباس اور تیسرے حضرت علی۔ان کے علاوہ کسی کو خبر نہیں تھی۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ گھاٹی کے راستے میں کھڑے تھے اور حضرت علی رضی اللہ عنہ گھاٹی کے کنارے پر۔مقصد یہ تھا کہ اگرچہ لوگ اپنے اپنے خیموں میں سو رہے ہوں گے لیکن راستے پر نگاہ رکھی جائے۔کہیں کوئی شر پسند اس طرف نہ آ نکلے۔
حضرت عباس رضی اللہ عنہ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے اپنے باپ دادا کے مشرکانہ عقائد پر تھے۔لیکن اپنے بھتیجے کی محبت میں وہ اس مجلس میں شریک تھے۔بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مدینہ والوں سے گفتگو کر رہے تھے۔وہ چاہتے تھے کہ اپنے بھتیجے کی ہر ممکن حفاظت کی جائے۔آخر ان کا خون تھا۔خون کی محبت ان پر غالب تھی۔اسی لیے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں ایک موقعہ پر فرمایا تھا:
((اَلْعَبَّاسُ عَمُّ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم،وَأَنَّ عَمَّ الرَّجُلِ صِنْوُ أَبِیْہِ۔))[1]
’’کہ عباس رشتے میں اگرچہ میرے چچا ہیں،لیکن مقام و مرتبہ اور عزت و احترام کے اعتبار سے وہ میرے لیے باپ کی مانند ہیں۔‘‘
بیعت عقبہ ثانیہ کے متعلق سب سے زیادہ تفصیل حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کی ہے۔مسند امام احمد میں یہ حدیث موجود ہے اور اس کی سند حسن ہے۔وہ بیان کرتے ہیں :
[1] سلسلہ احادیث صحیحہ،حدیث: ۳۴۳۳۔