کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 262
کا معاملہ اللہ کے اختیار میں ہے،چاہے تو سزا دے اور چاہے معاف کر دے۔‘‘ حضرت عبادہ نے بیان کیا،چنانچہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ان امور پر بیعت کی۔‘‘[1] ۲۲۔بیعت عَقَبَہ ثانیہ ....اسلامی دعوت کا ایک عظیم مرحلہ: نبوت کے گیارہویں سال خزرج کے چھ افراد نے اسلام قبول کیا۔انہوں نے مدینہ طیبہ جا کر تبلیغ کی اور اگلے برس بارہ افراد نے منٰی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔اس موقع پر حضرت مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے ہمراہ مدینہ طیبہ بھیج دیا تاکہ اہل مدینہ کو دین کی دعوت دی جا سکے۔اس عظیم مبلغ اسلام کی مخلصانہ مساعی کا نتیجہ تھا کہ اگلے برس حج کے موقع پر ۷۲ افراد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کرنے کے لیے تشریف لائے۔یہ ایک بڑی کامیابی تھی اور اس کا سہرا حضرت مصعب بن عمیر اور انصار کے سر پر سجتا تھا۔یہ بیعت کتب تاریخ و سیرت میں بیعت عقبہ ثانیہ کے نام سے معروف ہے اور یہ رات کے اندھیرے میں ہوئی تھی۔اس عظیم واقعے کے بارے میں کچھ جاننے سے پہلے ضروری ہے کہ ان حالات سے آگاہی ہو،جن میں یہ بیعت ہوئی تھی۔ مکہ والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے شدید پرخاش رکھتے تھے اور انہیں گوارا نہ تھا کہ کوئی اسلام کی دعوت پر کان دھرے چہ جائیکہ وہ مسلمان بھی ہو جائے۔وہ ہر ممکن طریقے سے لوگوں کو اسلام قبول کرنے سے روکتے اور اگر کوئی اسلام قبول کرتا تو اسے سخت اذیت
[1] صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب وفود الانصار الی النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم بمکۃ و بیعۃ العقبۃ،حدیث: ۳۸۹۲۔تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیے: سیرت انسائیکلو پیڈیا،ج ۴،ص:۱۳۰،۱۳۱۔رحمۃ للعالمین،ج ۱،ص: ۱۰۱۔الرحیق المختوم،ص: ۲۰۵۔