کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 240
بھینچا اور آپ نے اس کی سخت تکلیف محسوس کی۔جب آپ غار حرا سے واپس تشریف لائے تو آپ کا دل کانپ رہا تھا۔کیونکہ آج آپ کے ساتھ غار میں جو واقعہ پیش آیا،وہ بالکل نیا تھا۔آپ کو علم نہیں تھا کہ یہ سب کیا ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس حد تک خوف زدہ تھے کہ گھر آنے کے بعد آپ نے بتکرار کہا مجھے چادر اوڑھا دو،مجھے چادر اوڑھا دو۔
اولین وحی کے بعد حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش آنے والے یہ تمام امور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت پر بھی دلالت کرتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی حدود بھی واضح کر رہے ہیں۔اس وقت تک حضرت آقا علیہ الصلوٰۃ والسلام کو علم نہ تھا کہ ان کے ساتھ کیا ہو چکا ہے اور کیا ہونے والا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرائیل کی آمد سے متوحش تھے جبکہ امر واقعہ یہ تھا کہ آپ کے سر پر نبوت و امامت کا تاج رکھ دیا گیا تھا۔اس کائنات کا سب سے بڑا اور منفرد اعزاز آپ کو مل چکا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بے خبر تھے۔اس لیے کہ اس وقت تک اللہ رب العزت نے آپ کو آگاہ نہیں فرمایا تھا۔
ایک اور نکتے پر غور کیجیے!
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین سیّدہ خدیجہ سلام اللہ علیہا کو سارا قصہ گوش گزار فرمایا تو ساتھ ہی یہ بھی فرمایا : لقد خشیت علی نفسی مجھے تو اپنی جان کا اندیشہ ہے....کیا مطلب؟ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی لسان مبارک سے نکلے ہوئے اس مختصر سے جملے پر غور فرمایے! آپ کے عقائد کی اصلاح ہو جائے گی۔
ام المومنین رضی اللہ عنہا نے جواب میں کیا فرمایا؟ کیا انہوں نے یہ فرمایا کہ آپ کو تو ’’کان وما یکون‘‘ کی خبر ہے؟ آپ کی نظر مبارک تو لوح محفوظ پر ہے؟ آپ تو آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل ہی نبی تھے؟ جی نہیں،مومنوں کی ماں سلام اللہ علیہا نے کمال فراست و دانش کا ثبوت دیا۔جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھارس دی،آپ کی ہمت بندھائی،وہاں آپ کے اس خیال ....کہ مجھے تو اپنی جان کا اندیشہ ہے ....کا صاف انکار کیا۔