کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 229
اللہ تعالیٰ کی طرف سے شب قدر کے بارے میں پہلے آگاہ فرمایا گیا....ایک لمحے کے لیے یہیں رک جائیے۔اس کا صاف مطلب تو یہ ہوا کہ اس آگاہی سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم نہ تھا کہ شب قدر کب ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علیم بذات الصدور اللہ رب العزت کی طرف سے بھلا دیا گیا کہ شب قدر کب ہوگی؟ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اگرچہ علم ومعرفت کے بحربے کراں تھے کہ جس کی وسعتوں اور گہرائیوں سے آگاہی صرف رب العالمین کو تھی،کسی بشر کے لیے ممکن ہی نہ تھی،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم و معرفت کے جو خزینے عطا ہوئے تھے،وہ سب عطائے رب جلیل تھی۔اس لیے وہ جو کہتے ہیں :
بلغ العلی بکمالہ
کشف الدجی بجمالہ
تو حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔اس مسئلے کا تعلق بھی عقیدے سے ہے۔حقیقت تو یہ ہے کہ نبی مکرم رحمت عالم شفیع روز محشر صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر درجات و مقامات ....کہ جن میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی ثانی نہیں ....آپ پر آپ کے رب رحیم و کریم کی عطاء تھے۔یہ حضرت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی ذاتی کمال یا جمال کا نتیجہ نہیں تھے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بے حد و حساب اور بے مثال جمال و کمال ....فی نفسہٖ یہ بھی تورب العالمین کی عنایت ہی تھی۔مقام محمود....کہ جس کا میرے رحیم و کریم پروردگار نے سید الاولین والآخرین صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ فرمایا ہے،وہ بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عنایت رب جلیل ہے۔
معذرت کے ساتھ عرض کروں گا کہ ہم غور و فکر کے عادی نہیں۔سننے اور سن کر سردھننے کے خوگر ہیں اور بس ....! یہی ہمارے دینی شعور کی ابتداء ہے اور یہی انتہا۔ورنہ حدیث شریف کے متن سے صاف معلوم ہو رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شب قدر کا تعین کے ساتھ قطعاً علم نہیں تھا۔اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے عشرے کا اعتکاف