کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 225
دے سکتے تھے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکمت و تدبر سے کام لیتے ہوئے اس سے در گزر کیا۔
۱۰۔ لبید بن اعصم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دشمنی والی اس گھٹیا حرکت کے باوجود آپ کے پاس آتا تھا لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مصلحتاً کبھی اس پر ظاہر نہ فرمایا کہ اللہ علیم و خبیر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے مہلک وار سے آگاہ کر دیا ہوا ہے۔اس لیے بوقت ضرورت اُمت کے وسیع تر مفاد میں مسلمانوں کا حکمران کسی حکمت عملی کے تحت اجتہاد سے کام لے کر اعراض کی پالیسی اختیار کر سکتا ہے۔لیکن اس کایہ مطلب نہیں کہ شاتم رسول کی سزا کا انکار کر دیا جائے وہ بہرصورت سزائے موت کا مستحق ٹھہرے گا،اس لیے کہ اس کو معاف کرنا نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تھا۔اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں نہیں،اس لیے کوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخ کو معاف نہیں کر سکتا۔
۱۱۔ لبید بن اعصم کا دشمن رسول ہونا تو اس کی اس قبیح حرکت سے واضح ہے لیکن ظاہراً وہ گستاخِ رسول نہیں تھا۔اس لیے کہ وہ جادو کے اس وار کے بعد بھی بارگاہ نبوت میں آیا کرتا تھا اور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔اس نے ظاہراً کبھی آپ سے بد زبانی نہیں کی تھی نہ آپ کو سب و شتم کیا۔ہاں چوری چھپے ایسے دشمنوں سے بعید نہیں کہ وہ اپنی مجلسوں میں اپنے خبث باطن کا اظہار کرتے رہیں۔
۴۱۔نماز تہجد کے لیے ترغیب:
ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نیند سے بیدار ہوئے اور فرمایا:
’’سبحان اللہ!