کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 224
تحریف کی ہے اور ’’علمہ البیان‘‘کے معنی یہ کیے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ ما کان و ما یکون‘‘یعنی جو ہو چکا اور جو ہونے والا ہے ....کا بھی علم ہے،یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس خدائی صفت سے متصف ہیں تو ان کا یہ کہنا گویا ریت کے گھروندے تعمیر کرنا ہے۔ایسا عقیدہ رکھنا کتاب و سنت کے منافی ہے۔سلف صالحین کے ہاں تو اس قسم کے مصنوعی عقاید کا تصور بھی نہیں تھا۔شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ ہمارے اسلاف کا تعلق سر زمین حجاز سے تھا،ہندوستان کی کسی دُور دراز کی بستی سے نہیں تھا۔ ۶۔ اگر آپ کو غیب کا علم ہوتا تو آپ مسلسل دعائیں نہ فرماتے بلکہ فوری طور پر زروان کے کنویں سے جادو نکال کر اسے ضائع فرما دیتے۔آپ کو علم ہوتا کہ اس جادو کے توڑ کے لیے تیر بہدف نسخہ یعنی معوذتین نازل ہوں گی تو آپ ان دو عظیم سورتوں کے نازل ہونے کا انتظار فرماتے۔بلکہ آپ کو پہلے سے ہی علم ہوتا کہ معوذتین میں فلاں فلاں آیات ہیں اور یہ جادو کا توڑ ہیں۔ ۷۔ اللہ رب العزت کا مختار کل ہونا واضح ہو رہا ہے کہ انہوں نے اپنے محبوب علیہ السلام کی پریشانی دیکھی لیکن اس کا علاج اس وقت ہی نازل فرمایا کہ جب ان کی مشیئت تھی۔ورنہ اللہ تعالیٰ کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا تقاضا تو یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی طرح کی مشکل پیش ہی نہ آتی لیکن اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر کام ان کی طے شدہ تقدیر کے تحت انجام پاتا ہے۔ ۸۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے مسلسل دُعائیں کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ رب العزت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دُعائیں فوری طورپر قبول نہ فرمائیں۔ ۹۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے۔جب آپ پر جادو ہوا تو آپ مدینہ طیبہ کے حکمران تھے۔آپ چاہتے تو لبید بن اعصم کو اس جرم کی پاداش میں سخت سزا