کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 217
جو کہ سر کی جانب کھڑا تھا،کہا کہ ان کی اور ان کی امت کی کوئی مثال تو بیان کرو۔ وہ کہنے لگا ان کی اور ان کی امت کی مثال اس گروہ جیسی ہے جو سفر میں ہوں اور ان کا سفر قریب الاختتام ہو اور وہ کسی جنگل کے شروع میں ہوں۔اور ان کے پاس کوئی ایسا زاد سفر نہ ہو کہ وہ اس جنگل کو عبور کرسکیں اور وہ وہاں سے واپس بھی نہ جاسکیں۔اسی شش وپنج میں ان کے پاس ایک ایسا شخص آیا کہ جس نے عمدہ لباس پہنا ہو،بالوں میں کنگھی کی ہو۔اس نے ان سے کہا اگر میں تمہیں پھلوں سے بھرے ہوئے باغ اور چشمے تک لے جاؤں تو کیا تم میرے ساتھ چلو گے؟ وہ مسافر کہنے لگے! ہاں ہاں۔کیوں نہیں۔وہ انہیں ساتھ لے کر چل پڑا اور انہیں پھلوں سے بھرے باغ اور پانی سے لبا لب چشمے تک پہنچا دیا۔ پھر انہوں نے وہاں پیٹ بھر کر پھل کھائے۔اپنی پیاس خوب بجھائی۔پھر اس آدمی نے ان سے کہا: کیا میری تمہاری ملاقات اس حال میں نہیں ہوئی تھی کہ میں نے تمہیں پیش کش کی کہ اگر تمہیں ہرے بھرے باغات اور پانی تک لے جاؤں تو تم میری اتباع کرو گے؟ وہ کہنے لگے کیوں نہیں۔بلاشبہ ایسے ہی ہوا۔پھر اس آدمی نے کہا بلاشبہ تمہاری آئندہ منزل اس سے بھی عمدہ باغات اور چشموں والی ہے۔اس لیے میرے ہمراہ آؤ۔لیکن کچھ لوگوں نے کہا کہ آپ نے سچ کہا۔اللہ کی قسم ہم آپ کی پیروی کریں گے۔اور کچھ لوگ کہنے لگے: ہم اسی پر خوش ہیں جو میسر آگیا۔ہم یہیں رک جائیں گے۔[1]
[1] مستدرک للحاکم،کتاب تعبیر الرؤیا،حدیث: ۸۲۰۰۔یہ حدیث شیخین یعنی امام بخاری اور امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہے۔البتہ انہوں نے صحیحین میں اسے روایت نہیں فرمایا۔