کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 212
کرے،اس لیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی طرف سے یہ اندیشہ تھا کہ کہیں وہ جنگ پر نہ آمادہ ہوجائیں اور آپ کو اور صحابہ کرام کو بیت اللہ سے روک نہ دیں۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ماہ ذی القعدہ کو پسند کیا جو ماہِ حرام ہے،تاکہ قریش والے خوفزدہ نہ ہوں،اور بہانہ نہ بنائیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ حلال میں قریشیوں سے جنگ کرنا چاہتا ہے،اوراس بہانے مسلمانوں کو بیت الحرام تک پہنچنے سے روک نہ دیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو خواب کی اطلاع اُس وقت دی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ کے لیے روانہ ہوگئے،اس سے مسلمانوں کو بہت زیادہ خوشی ہوئی اور انہیں یقین ہوگیا کہ وہ عنقریب طویل غیر حاضری کے بعد مکہ مکرمہ میں داخل ہوں گے،بیت اللہ کی زیارت کریں گے،عمرہ کریں گے اور اپنے محبوب وطن اور خویش واقارب کو دیکھیں گے۔لیکن جب صلح نامہ کی شرط کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے بغیر مدینہ واپس ہوگئے تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کے خواب کی تعبیر پوچھی۔منافقین کہنے لگے: یہ کیسا عمرہ ہے جس میں نہ ہم نے اپنے بال منڈائے یا کٹائے اور نہ مسجد حرام میں داخل ہوئے۔اس وقت پوری سورۃ الفتح نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو خبر دی کہ اللہ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا ہے،اور وہ عنقریب پوراہوگا،لیکن ابھی اس کا وقت نہیں آیا ہے،اور اللہ اس تاخیر کی مصلحت خوب جانتا ہے۔[1] اس آیہ مبارکہ کی تفسیر میں مولانا عبدالرشید ’’توضیح القرآن‘‘ میں لکھتے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں خواب دیکھا کہ آپ مکہ میں داخل ہوئے ہیں اور بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔پھر آپ نے یہ خواب صحابہ کو سنایا اور مکہ کی طرف چلے تو صحابہ کی ایک جماعت کو یقین ہوا کہ اسی سال اس خواب کی تعبیر ضرور صادق ہوگی لیکن جب حدیبیہ میں صلح قرار پائی اور
[1] الصادق الامین،ص: ۴۸۹۔۴۹۰۔