کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 191
حدیث مبارکہ سے معلوم ہوئی۔دوسری حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین و آسمان کے مابین کی چیزیں آپ کے لیے روشن ہو گئیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے لیے ہر چیز روشن ہو گئی اور میں نے جان لیا۔‘‘ یعنی یہ علم دائمی نہیں تھا۔
۴۔ اللہ رب العزت کے ہاتھ رکھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر زمین و آسمان کے مخفی راز عیاں ہوئے۔اس سے نبوی علوم و معارف کے وسیع خزائن کی ایک جھلک تو محسوس ہوتی ہے لیکن اس سے یہ نتیجہ نہیں نکالا جا سکتا کہ آپ کو آنے والے وقت کا علم بھی دے دیا گیا۔
۵۔ یہ حدیث مبارکہ آقائے کائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے علم کی وسعتوں کا اظہار تو کرتی ہے لیکن اس سے آپ کے لیے عقیدہ علم غیب کا اثبات نہیں ہوتا۔
۶۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم عالم الغیب ہوتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سوال کی ابتداء میں ’’کفارات‘‘ کے جواب میں لا علمی کا اظہار کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
۷۔ نبی مکرم،رحمت عالم،شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کا احاطہ انسانی قلم نہیں کر سکتا لیکن تمام تر شان و عظمت کے باوجود رب العزت نے اپنے محبوب کو اس بات کا علم نہ عطا فرمایا کہ مقرب فرشتے آپس میں کیوں جھگڑتے ہیں۔ہاں جب میرے رب کو منظورہوا تو محبوب رب العالمین پر زمین و آسمان کے مابین جو کچھ تھا روشن ہو گیا۔
۸۔ مختلف احادیث میں فرشتوں کا آپس میں جھگڑنے کا ذکر ہے۔فرشتے اپنی مرضی کے تابع مخلوق نہیں۔ان کا جھگڑنا یا آپس میں تکرار کرنا وغیرہ حکم الٰہی کے تحت ہے۔
۹۔ ’’کفارات‘‘ کی انجام دہی پر کوئی نقد رقم خرچ نہیں آتی اور نہ یہ سخت مشکل یا محنت طلب کام ہے۔البتہ اس کے لیے نفس پر کچھ نہ کچھ بوجھ ڈالنا ہو گا۔جب بندۂ مومن کا نفس ’’ کفارات ‘‘ کا عادی ہو جائے گا تو اس کے لیے عبادات کی