کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 174
طرف خیبر کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی آنکھوں میں اپنا لعاب مبارک لگایا تو ان کی آنکھوں کی تکلیف ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔[1]ان واقعات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ جب آپ کو اللہ رب العزت کی طرف سے حکم ہوا تو آپ نے اپنے لعاب مبارک سے علاج فرمایا اور مریضوں کو باذن اللہ شفائے کاملہ و عاجلہ دائماً ابداً نصیب ہوئی۔محبت نبوی سے سرشار افراد کے لیے اس نکتے میں ایمان کی حلاوت پوشیدہ ہے۔لیکن اسے سمجھنے اور اس سے حظ اٹھانے کے لیے قلب سلیم کی ضرورت ہے۔
[1] حیح مسلم میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو دربار داغا تھا۔(ابواب الطب،حدیث: ۲۲۰۸) لیکن حضرت سعد بھی مکمل جان بر نہ ہو سکے اور ان کا زخم کھل گیا اور شہادت کے رتبے پر فائز ہو گئے۔ان دونوں واقعات میں رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اپنے بے حد قریبی جاں نثاروں کو داغ دیا۔لیکن بیماریوں سے شفا عطا کرنے والے رب کو منظور نہ تھا،اس لیے کائنات کے سب سے برکت والے ہاتھوں سے بھی شفا نصیب نہ ہوئی اور مریض وفات پا گئے۔اگر رحمۃ للعالمین کو اس طریقہ علاج کے نتائج کی پہلے سے ہی خبر ہوتی تو وہ کبھی اپنے پیارے ساتھیوں کو داغ دینے کی تکلیف نہ دیتے۔
یہودیوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت دینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔اس وقت بھی انہوں نے یہ پراپیگنڈہ کیا کہ اگر یہ سچے نبی ہوتے تو اپنے ساتھیوں کو بچا لیتے۔انہوں نے تو خود داغ دیا ہے،پھر بھی ان کے ساتھی فوت ہوگئے۔اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کس قدر واضح الفاظ میں عقیدہ توحید بیان فرمایا کہ:
((وَمَا اَمْلِکَ لَہُ وَلَا لِنَفْسِی شَیْئٍا۔))
’’میں اس کے لیے یا اپنی جان کے لیے کسی بھی چیز کا مالک نہیں۔‘‘
آج اگر کوئی شخص اس عقیدے کی نشر و اشاعت کرے تو ہمارے ہی مسلمان بھائی اس کو طرح طرح کے نازیبا کلمات سے پکارتے ہیں۔ان کے لیے سوچنے کا مقام ہے کہ عقیدت و محبت کے نام پر رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عقیدۂ توحید کے برعکس عقیدہ تو نہ اپنایے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان عالی شان نے واضح کر دیا کہ زندگی اور موت کا مالک صرف اور صرف اللہ تعالیٰ ہے۔اگر کوئی اور مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت رکھتا تو ہمارے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی اپنے رفقاء کو داغ دینے کے بعد موت کے منہ میں جانے نہ دیتے۔
صحیح بخاری،کتاب فضائل اصحاب النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم،باب مناقب علی بن ابی طالب،حدیث: ۳۷۰۱۔