کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 173
وہاں سیل رواں جاری ہوگیا۔حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا غار والا قصہ مشہور ہے۔یہ سب آپ کے معجزے تھے۔ہمارا اس پر ایمان ہے۔لیکن اگر آپ کا لعاب مبارک مستقل بالذات شفا ہوتا تو جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچھو نے کاٹا،آپ نے اپنے زخم پر لعاب لگانے کی بجائے نمک اور پانی سے کیوں علاج فرمایا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو حکم فرمایا کہ نمک اور پانی لے کر آئیں،اس سے کہیں آسان بات یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا لعاب مبارک بچھو کے کاٹے پر لگا دیتے۔اس کے لیے کسی تردد یا تکلف کی ضرورت نہیں تھی۔
پھر لعاب مبارک لگانے کی بجائے نمک اور پانی منگوانے کا کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ کہ جب اللہ تعالیٰ کا حکم ہوا آپ کے لعاب مبارک میں شفاء کا عنصر داخل ہوگیا اور جب اللہ رب العزت کا اذن نہ ہوا،آپ کے لعاب میں تمام تر برکتوں کے باوجود شفاء شامل نہ ہوئی۔جیسے کہ حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے اس وقت کے رائج طریقہ علاج کے مطابق داغ دیا۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے داغ دینے کے باوجود وہ جانبر نہ ہوسکے اور وفات پاگئے۔[1] دوسری
[1] حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کا یہ واقعہ عقاید کی اصلاح کے کتنے ہی نکات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔آپ اس حدیث مبارکہ پر غور و فکر کیجیے ہم عقیدت و محبت کی ان دیکھی راہوں کے مسافر ہیں اور ہماری راہیں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کس قدر جدا ہیں۔امام ابن ماجہ یہ حدیث روایت فرماتے ہیں اور دیگر ائمہ حدیث نے بھی اسے روایت فرمایا ہے:
’’حضرت سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ کو حلق میں درد ہوا۔جسے ذُبْحُ کہتے ہیں۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں ابو امامہ (سعد بن زرارہ رضی اللہ عنہ ) کے علاج کی پوری کوشش کروں گا حتی کہ معاملہ میرے بس سے باہر ہو جائے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اپنے ہاتھ سے داغا لیکن وہ (جان بر نہ ہو سکے اور) فوت ہو گئے۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہودیوں کو بری موت نصیب ہو! وہ کہتے ہیں : اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) نے اپنے ساتھی کی جان کیوں نہ بچا لی؟ میں تو اس کے لیے یا اپنے لیے (اللہ کے فیصلے کے مقابلے میں ) کچھ اختیار نہیں رکھتا۔‘‘ (سنن ابن ماجہ،ابواب الطب،باب من اَشوٰی،حدیث: ۳۴۹۲،یہ حدیث حسن ہے۔) (((