کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 125
تبلیغ کے نام پر ذمہ داریوں سے راہِ فرار اختیار نہیں کی جا سکتی۔
۲۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عبادات کی کیفیات کے بارے میں امہات المؤمنین بالخصوص ام المؤمنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سب سے بہتر علم رکھتی تھیں۔اسی لیے اکابر و اصاغر صحابہ دریافت طلب اُمور میں ان کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔
۳۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جسمانی حالت اور صحت میں تغیر و تبدل کے سبب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نفلی معمولات میں بھی تبدیلی آ جاتی تھی۔
۴۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی نیند کا غلبہ ہو جاتا تھا جس کی وجہ سے آپ نمازِ تہجد کے لیے اپنے معمول کے مطابق بیدار نہ ہو پاتے تھے۔
۵۔ کبھی ایسے بھی ہوتا تھا کہ جسم مبارک میں درد ہو رہا ہوتا تھا۔اس لیے آپ نمازِ تہجد اگلے روز کے لیے مؤخر کر دیتے اور دن کے وقت بارہ رکعت ادا فرما لیتے۔
۶۔ اگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ’’نور من نور اللّٰہ‘‘ ہوتے تو پھر آپ کے جسم میں عام انسانوں کی طرح درد ہونا یا آپ پر نیند کا غلبہ طاری ہونا کیا معنٰی رکھتا ہے؟
۷۔ اس کا واضح مفہوم ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آدم علیہ السلام کے بیٹے تھے اور سید البشر یعنی ذریت آدم کے سردار تھے۔
۸۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی ایک رات میں قرآن کریم ختم نہیں فرمایا تھا۔
۹۔ ایک رات میں ایک یا زائد قرآن ختم کرنا ....اگر واقعی عملاً ایسا ہوتا ہو....کوئی نیکی کا کام نہیں۔اس لیے کہ ہمارے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں کیا۔پھر بھی اگر کوئی سمجھتا ہے کہ رات بھر میں مکمل قرآن کریم تلاوت کرنا بہت بڑی نیکی ہے تو وہ جان لے کہ جن پر قرآن نازل ہوا تھا یعنی رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم ....انہوں نے بہر حال کبھی ایک رات میں قرآن کریم ختم نہیں کیا تھا۔
۱۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عموماً کبھی ساری رات نماز پڑھتے ہوئے بھی نہیں گزاری تھی۔