کتاب: نبی رحمت ص کی راتیں - صفحہ 112
آپ کو موت کا ذائقہ چکھنا ہو گا۔[1]آپ کو اپنے پیاروں سے جدا ہونا ہو گا۔اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا عقیدہ رکھنا یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے موت کا لفظ استعمال کرنا آپ کے ادب و احترام کے منافی نہیں۔کیونکہ اللہ رب العزت نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے یہ اصطلاح استعمال فرمائی ہے اور اللہ تعالیٰ سے زیادہ تو کسی کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت نہیں اور نہ کسی کو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان و عظمت کی خبر ہے۔محبتِ نبوی کا وہی اسلوب معتبر ہو گا جو کتاب و سنت کے مطابق ہو گا۔
اس حدیث مبارکہ سے صاف معلوم ہوا کہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مروجہ عقیدہ کتاب و سنت کے منافی ہے۔اگر آپ کی حیات کا عقیدہ رکھا جائے تو پھر آپ کی وفات کا معنی کیا ہو گا؟ غیر ضروری تاویلات محض تکلف کا سامان ہیں اور کچھ نہیں۔
[1] اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اس ابدی ودائمی حقیقت کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہوتے ہوئے ان الفاظ میں بیان فرمایا:
﴿اِِنَّکَ مَیِّتٌ وَاِِنَّہُمْ مَیِّتُوْنَ ﴾ (الزمر: ۳۰)
’’بے شک آپ بھی مرنے والے ہیں اور بے شک وہ بھی مرنے والے ہیں۔‘‘
ایک اور مقام پر اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
﴿ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلاَّ رَسُوْلٌ قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلِہِ الرُّسُلُ اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ انْقَلَبْتُمْ عَلٰٓی اَعْقَابِکُمْ وَمَنْ یَّنْقَلِبْ عَلٰی عَقِیْبَیْہِ فَلَنْ یَّضُرَّ اللّٰہَ شَیْئًا وَسَیَجْزِی اللّٰہُ الشّٰکِرِیْنَo﴾....’’اور نہیں ہیں محمد مگر ایک رسول،بے شک ان سے پہلے کئی رسول گزر چکے تو کیا اگر وہ فوت ہو جائیں،یا قتل کر دیے جائیں تو تم اپنی ایڑیوں پر پھر جاؤ گے اور جو اپنی ایڑیوں پر پھر جائے تو وہ اللہ کو ہرگز کچھ بھی نقصان نہیں پہنچائے گا اور اللہ شکر کرنے والوں کو جلد جزا دے گا۔‘‘
آیت مبارکہ کے الفاظ ’’اَفَاْئِنْ مَّاتَ اَوْ قُتِلَ‘‘ یا حدیث شریف کے الفاظ ’’فَاِنَّکَ مَیِّتٌ‘‘ کا فصیح و بلیغ ترجمہ بھی کیا جائے،الفاظ سے کھیلنے والا کوئی ’’فنکار‘‘ بھی ان کا ترجمہ یہ نہیں کر سکتا کہ آپ کو موت نہیں آنی اور آپ اس طرح زندہ ہیں جس طرح اپنی حیاتِ مبارکہ میں زندہ تھے اور ۶۳ برس تک زندہ رہے۔’’مَاتَ‘‘ کا مطلب زندگی کبھی نہیں ہو سکتا۔’’قُتِلَ‘‘ کا مفہوم زبان و ادب کا کوئی بھی شہسوار جامِ شہادت نوش کرنے کے سوا کچھ اور نہیں کر سکتا۔ان نصوص قطعیہ کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا عقیدہ رکھنے والوں کو اتہامات و الزامات کا نشانہ بنانا درحقیقت بالواسطہ قرآنِ کریم پر اعتراض کرنے کے مترادف ہے۔(معاذ اللہ)