کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 98
دشوار گزار سفر پیدل ہی کرنا پڑا۔ جس سے پا ؤ ں پر آبلے پڑجاتے تو ان کے گرد پٹیاں لپیٹ کر سفر جاری رکھتے تھے۔[1] جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم منزل مقصود پر پہنچے تو دشمن مرعوب ہوکر منتشر ہوگیا۔ اس سفر سے واپسی پر ایک قابل ذکر واقعہ پیش آیا جسے حضرت جابر بن عبداللہ ص ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ: «اَنَّهُ غَزَامَعَ رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلّم قِبَلَ نَجْدٍ فَلَمَّا قَفَلَ رَسول اللّٰه صلّی اللّٰه علیه وسلّم قَفَلَ مَعَهُ فَاَدْرَکَتْهُمْ الْقَائِلَة فِیْ وَادٍ کَثِیْرِ العضاةِ فَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلّی اللّٰه عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَتَفَرَّقَ النَّاسُ فی الْعِضَاة یَسْتَظِلُّوْنَ بِالشَّجَرَةِ وَنَزَلَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ علیه وَسَلَّمَ تَحْتَ سَمُرَةٍ فَعَلَّقَ بِهَا سَیْفَهُ قَالَ جَابِرٌ: فَنِمْنَا نَوْمَةً ثُمَّ اِذَا رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلَّمَ یَدْعُوْنَا ، فَجِئْنَاه فَاِذَا عِنْدَهُ اَعْرَابِیٌّ جَالِسٌ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ علیه وسلمَ : اِنَّ هٰذَا اخْتَرَطَ سَیْفِیْ وَاَنَا نَائِمٌ فَا سْتَیْقَظْتُ وَهُوَفی یَدِه صَلْتًا فَقَالَ لِیْ ! "مَنْ یَمْنِعُكَ مِنِّیْ؟ قُلْتُ ! اللّٰهُ ! فَهَا هُوَ ذاجَالِسٌ" ثُمَّ لَمْیُعَاقبه رسول الله صلی الله علیه وسلم»[2] (انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے لوٹے تو میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوٹا۔ اتفاق سے دوپہر کو ایسے مقام پر پہنچے جہاں خار دار درخت بہت تھے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں اتر پڑے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی الگ الگ درختوں کے سائے میں ٹھہرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کیکر کے درخت کے نیچے ٹھہرے اور تلوار درخت سے لٹکا دی (اور سوگئے) جابر کہتے ہیں ہم لوگ بھی سو رہے تھے۔ یکایک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہم کو بلانے لگے۔ہم آئے تو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک گنوار (غورث بن حارث) بیٹھا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پتہ ہے ابھی اس گنوار نے کیا کیا؟ میں سورہا تھا کہ اس نے میری تلوار سونت لی۔ میں جاگا تو ننگی تلوار اس کے ہاتھ میں دیکھی۔کہنے لگا! اب تم کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ میں نے کہا’’ میرا اللہ‘ ‘دیکھو وہ گنوار یہ بیٹھا ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کوئی سزا نہ دی۔) اور بعض دوسری روایات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ بچائے گا‘‘ تو اس بدو پر لرزہ طاری ہوگیا۔ تلوار اس کے ہاتھ سے گرگئی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پکڑلی اور سونت کر کہا۔’’بتا ؤ ! اب تمہیں مجھ سے کون بچائے گا۔ کہنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رحم و کرم ‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
[1] بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوہ ذات الرقاع۔ [2] بخاری ۔کتاب المغازی باب غزوة ذات الرقاع