کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 92
ابو رافع عبداللہ بن ابی الحقیق: بنو نضیر کا رئیس تھا۔خیبر میں رہتا تھا کعب بن اشرف کی طرح مسلمانوں اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کا جانی دشمن تھا۔یہ بہت بڑا بد زبان تھا۔رات کو محفل جما کر اس میں مسلمانوں کے خلاف من گھڑت قصے بیان کرتا۔ان کے خلاف نفرت پھیلاتا اور ان کی تضحیک و تمسخر اڑاتا۔کئی بار معاہدے کی خلاف ورزی کی۔جنگ احزاب کے موقع پر کئی قبائل کو ترغیب دے کراور روپیہ سے ان کی مدد کر کے مدینہ پر چڑھالایا تھا۔محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے جو قبیلہ اوس سے تعلق رکھتے تھے۔کعب بن اشرف کا خاتمہ کر دیا تو انصار میں رشک پیدا ہوا۔چنانچہ ابو رافع کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لیے قبیلہ خزرج کے ایک فرد عبداللہ بن عتیک رضی اللہ عنہ تیار ہوگئے۔آپ رضی اللہ عنہ کے ساتھ تین ساتھی اور بھی تھے۔وہ خود بیان کرتے ہیں کہ: رات کو ہم اس قلعہ کے قریب پہنچ گئے میں نے اپنے ساتھیوں کو قلعہ سے باہر ٹھہرنے کو کہا اور خود قلعہ میں داخل ہونے والے لوگوں میں مل کر اندر داخل ہوا۔ اور گدھوں کے طویلے میں ایک جگہ چھپ گیا۔ کچھ دیر بعد دربان نے آواز دی ’’کوئی باہر تو نہیں رہ گیا؟ اور جب کوئی جواب نہ پایا ۔ تو قلعہ کا دروازہ اندر سے مقفل کرکے چابی ایک جگہ رکھ دی میں وہ جگہ دیکھ رہا تھا۔ جب رات کا ایک حصہ گزر گیا ۔ بتیاں بجھ گئیں اور سب لوگ سو گئے۔ میں نے چپکے سے چابی لے کر قلعہ کا دروازہ کھول دیا۔ تاکہ بھاگتے وقت یہ کام نہ کرنا پڑے۔ اس کے بعد سب کمروں کی باہر سے کنڈیاں لگا دیں۔ تاکہ کوئی ابو رافع کی مدد کو نہ پہنچ سکے۔ اب میں بالاخانے پر گیا جہاں وہ سورہا تھا۔ کمرہ کھلا تھا مگر اندھیرے کی وجہ سے یہ معلوم نہ ہوسکتا تھا کہ ابو رافع کہاں ہے۔ میں نے آواز دی۔ وہ بولا تو میں نے آواز پر تلوار کی ضرب لگائی مگر وار خالی گیا اور وہ چیخ اُٹھا۔ ایک لمحہ کے بعد میں نے آواز کو بدل کر اُس سے پوچھا۔ ’’ابو رافع کیا ہوا؟ ‘‘ جیسے کوئی اس کا کارندہ اس کی مدد کو پہنچ رہا ہو۔ ابو رافع بولا۔ ’’تیری ماں مرے ابھی مجھ پر کسی نے تلوار کا وار کیا ہے۔ میں نے پھر آواز پر ضرب لگائی۔ لیکن اب کی بار بھی وار کاری نہ لگاتو میں نے نزدیک جا کر اس کے پیٹ میں تلوار جھونک دی۔ مجھے یقین ہوگیا کہ اب وہ مرگیاہے۔ میں گبھراہٹ میں نیچے اُترا سیڑھی سے پھسلا ۔ میرے پا ؤ ں میں موچ آگئی۔ تاہم