کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 86
کہ تم قریش مکہ اور غطفان کے دس آدمی بطور یرغمال لے لو تاکہ بصورت شکست اگر وہ واپس چلے جائیں تو تمہاری تکلیف کا انہیں فکر ہو اور وہ اس کا مداوا سوچنے پر مجبور ہوں۔بنو قریظہ کے ذہن میں یہ بات آگئی۔ پھر یہی نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ قریش کے سپہ سالار ابو سفیان کے پاس گئے اور کہنے لگے۔’’دیکھو! میرے تمہارے ساتھ دوستانہ تعلقات ہیں۔میں تمہیں تمہارے ہی فائدے کی ایک بات کہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ بنو قریظہ اپنے کیے پر پریشان ہیں وہ تو پہلے ہی معاہدہ توڑنا نہیں چاہتے تھے۔حیی بن اخطب نے انہیں مجبور کر دیا تھا۔وہ بھی اس شرط پر کہ اگر قریش کا م ناتمام چھوڑ کر چلے گئے تو میں تمہارے پاس آرہوں گا۔اب ظاہر ہے کہ شکست کی صورت میں نہ تو بنو نضیر مدینہ واپس آسکتے ہیں اور نہ ہی تم ایسا کر سکتے ہو۔لہٰذا بنو قریظہ اب یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے چند آدمی بطور یرغمال اپنے پاس لے لیں۔اگر تم نے ان کی یہ بات مان لی تو عین ممکن ہے کہ وہ انہیں مسلمانوں کے حوالے کر کے جنگ کا نقشہ ہی الٹ دیں۔‘‘ ابو سفیان کے ذہن میں بھی یہ بات کھب گئی۔ چنانچہ قریش اور غطفان نے بنو قریظہ کے پاس عکرمہ بن ابو جہل کی سرکردگی میں ایک مشترکہ سفارت بھیجی ۔اور کہلا بھیجا کہ کل صبح آخری حملہ کے لیے تیار ہو جا ؤ ۔تاکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا قصہ ہی پاک کر دیں۔ بنو قریظہ نے جواب دیا کہ: ’’کل ہمارا چھٹی کا دن ہے۔لہٰذا کل یہ کام نہیں ہو سکتا۔نیز ہم محمد اکے ساتھ اس وقت تک لڑنے کے لیے تیار نہیں جب تک تم ہمارے اطمینان کے لیے اپنے چند خاص آدمی بطور ضمانت ہمارے حوالے نہ کر دو۔‘‘ تدبیر اپنا کام کر چکی تھی۔جب عکرمہ یہ پیغام لے کر واپس آیا تو قریش اور غطفان کو نعیم بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات کا یقین ہوگیا۔بنو قریظہ کو کہلا بھیجا کہ : ’’اگر تم لڑنا چاہتے ہو تو آجا ؤ ۔ورنہ تمہاری مرضی۔خدا کی قسم! ہم اپنا ایک آدمی بھی تمہارے سپرد کرنے کو تیار نہیں ہیں۔‘‘ یہ پیغام سن کر بنو قریظہ کو بھی نعیم بن مسعود کی بات کا یقین آگیا۔لہٰذا انہوں نے آئندہ جنگ میں حصہ لینے سے صاف انکار کر دیا۔دشمن کی فوجوں میں انتشار پیدا ہوگیا ۔کفار کے قبائل میں بدگمانی اور بد دلی کی فضا پیدا ہوگئی۔جو کفار کی شکست کے اسباب میں سے ایک مؤثر سبب