کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 84
(بقیہ[1]) پوری طرح تیار ہو۔اب دیکھئے کہ نپولین بونا پارٹ جو مغربی دنیا کا عظیم جرنیل سمجھا جاتا تھا‘ نے بھی برطانیہ کی تجارتی ناکہ بندی کی تھی جسے کانٹی نینٹل سسٹم (Continental System) بھی کہا جاتا ہے۔برطانیہ کے پاس مضبوط بحری بیڑہ بھی تھا۔اور بیرونی مصنوعات چینی‘ چائے‘ قہوہ‘ اور دیگر کئی اشیاء پر اس کی اجارہ داری بھی تھی ۔نپولین نے پہلے تو برطانوی در آمدات کو حکماً ممنوع قرار دیا پھر اپنے دوست ممالک پر دبا ؤ ڈالا کہ وہ بھی برطانوی مصنوعات اپنے ہاں ہرگز درآمد نہ کریں یہ ایک ایسی بات تھی جس پر زیادہ دیر تک عمل نہیں کیا جاسکتا تھا۔فرانس اور اس کے دوست ممالک کی تجارت بحران کا شکار ہوگئی۔برطانیہ نے جوابی کاروائی کے طور پر ان ممالک کی بھی ناکہ بندی کردی۔تو نپولین اور اس کے حامی ممالک سخت مجبور ہوگئے۔نتیجہ یہ ہوا کہ فرانس کے حلیف ممالک اسی وجہ سے اس سے کٹ گئے اور دشمن بن گئے۔خود نپولین کا یہ حال تھا کہ اسے فوج کے لیے ہزار ہا تعداد میں سمگل شدہ برطانوی کمبل بلیک میں اونچے نرخوں پر خریدنے پڑے۔اور اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو اس کے زوال کے اسباب میں سے ایک بڑا سبب اس کی یہی تجارتی ناکہ بندی تھی۔ (جدید تاریخ یورپ حصہ اول ۔ص ۳۶۳ تا ۳۵۶) ناکہ بندی کی ایک صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ دشمن کی کمک کو دشمن تک پہنچنے سے پہلے اس کا صفایا کر دیا جائے۔جنگ احزاب میں جب محاصرہ طویل ہوگیا اور ’’اتحادیوں‘‘ کی رسد ختم ہونے لگی تو حیی بن اخطب یہودیوں کے سردار نے رسد لائے ہوئے بیس اونٹ مشرکین کی فوج کے لیے بھیجے۔یہ رسد جو کھجوروں اور ستو پر مشتمل تھی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی خبر لگ گئی تو
[1] (۳) لوٹ مار کا مال اسلامی نقطہ نظر سے حرام قرار دیا گیا ہے۔یہ مال غنیمت کی تعریف میں نہیں آتا۔اس فرق کے لیے صفحہ۱۶۷ پر اموال غنیمت پر حدود و قیود کا عنوان ملاحظہ فرمائیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ بدر پر گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک شخص ملا جو بہادری میں مشہور تھا۔اس نے اپنی خدمات پیش کیں تاکہ اموال غنیمت سے حصہ حاصل کر سکے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا۔’’کیا تو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتا ہے؟‘‘ اس نے کہا نہیں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ (بقیہ ) ’’لوٹ جا میں مشرک کی مدد نہیں چاہتا۔تھوڑی دور آگے چل کر پھر یہی سوال و جواب ہوئے تو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی مدد لینے سے انکار کر دیا۔آگے بڑھے تو پھر یہی سوال و جواب ہوئے۔اب کی بار اس نے جواب دیا کہ ’’میں اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر یقین رکھتا ہوں۔‘‘ تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دیدی۔(مسلم ۔باب کراہیۃ الاستعانۃ فی الغزوبکافر) تاہم اس میں اتنی گنجائش ضرور ہے کہ کافر اگر مشرک نہ ہو اور اس سے مسلمانوں کی خیر خواہی کا بھی یقین ہو تو اسے فوج میں شامل کیا جاسکتاہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صفوان ابن امیہ صسے جنگ میں مدد لی جبکہ وہ ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے۔(امام نووی۔تحت شرح حدیث مذکورہ)