کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 83
ساتھ ہی یہ خطرہ بھی تھا کہ قریش مکہ اس قافلہ کی حفاظت کے لیے مسلح ہو کر موقع پر پہنچ جائیں گے۔
چنانچہ ان ملی جلی کیفیات سے رمضان ۲ھ میں مسلمانوں کا لشکر اس قافلہ کی طرف بڑھا۔ادھر ابو سفیان کو خبر ہوگئی تو اس نے تیز رفتار قاصد مکہ بھیجا۔مکہ سے ہنگامی طور پر ایک ہزار پر مشتمل مسلح لشکر ابو جہل کی سرکردگی میں قافلہ کی حفاظت کے لیے نکل کھڑا ہوا۔اب ہوا یہ کہ ابو سفیان نے عام رستہ کو چھوڑ کر بحیرہ قلزم کے ساتھ والا راستہ اختیار کر لیا۔اور اس طرح بچتا بچاتا قافلہ لے کر بحفاظت مکہ پہنچ گیا۔قریشی لشکر بدر کے مقام پر پہنچ چکا تھا تو اسے بھی معلوم ہوگیا کہ ابو سفیان بخیریت مکہ پہنچ چکا ہے۔لہٰذا اکثر سرداروں نے یہ رائے دی کہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔لہٰذا اب جنگ نہ کرنی چاہیے۔مگر ابو جہل کے غرور اور ہٹ دھرمی نے کوئی پیش نہ جانے دی اور جنگ ہو کر رہی جس میں کفار کو عبرت انگیز شکست ہوئی۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اس تجارتی ناکہ بندی کے اور بھی چند ایک واقعات ملتے ہیں۔مندرجہ بالا تصریحات سے مقصود یہ ہے کہ غزو ۂ بدر کا پیش خیمہ بھی تجارتی ناکہ بندی تھا۔اور ایسی مہمیں بسا اوقات کامیاب ہی ثابت ہوئیں۔
ابتداء میں قریش نے اس خطرہ سے محفوظ رہنے کے لیے بحیر ۂ قلزم کے ساحل کے ساتھ کا متوازی راستہ اختیار کیا مگر ان پر چل کر ان کے منافع کی مقدار بہت کم ہوگئی اور سامانِ خوراک بڑی دقت سے اور گراں قیمت پر ملنے لگا۔اس طرح کی ناکہ بندی[1] سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو مقصد تھے۔ایک یہ کہ دشمن معاشی لحاظ سے کمزور ہو جائے دوسرے وہ منافع جو فوری طور پر مصارف جنگ کی صورت میں مسلمانوں ہی پر استعمال ہونے والا تھا اس کا قصہ ہی ختم ہو جائے۔
تجارتی ناکہ بندی کو کامیاب بنانے کے لیے گہرے تدبر کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ اسی وقت کی جانی چاہیے جب انسان اس سے پیدا ہونے والے رد عمل کا مقابلہ کرنے کے لیے
[1] اس تجارتی ناکہ بندی پر معاندین اسلام نے یہ الزام لگایا کہ اسلام غارت گری کی تعلیم دیتا ہے۔اور مسلمانوں کا مقصد محض لوٹ مار کا مال حاصل کرنا تھا۔لیکن یہ الزام کئی لحاظ سے غلط ہے۔مثلاً:
(۱) اگر لوٹ مار ہی مقصد ہوتا تو پھر صرف قریش کے تجارتی قافلہ کی تخصیص کیوں تھی۔تجارتی قافلے تو یمن سے بھی روانہ ہوتے تھے‘ مدینہ سے بھی اور غیر ملکی تاجر بھی ان راستوں پر سفر کرتے تھے۔ان کی کبھی ناکہ بندی نہیں کی گئی۔
(۲) کسی واقعہ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مسلمانوں نے اس ناکہ بندی کے ذریعہ مال حاصل کیا ہو۔سریہ نخلہ میں عبداللہ بن حجش نے اگر مال حاصل کیا بھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا۔