کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 76
﴿ وَاِذْ غَدَوْتَ مِنْ اَھْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِيْنَ مَقَاعِدَ لِلْقِتَالِ (۳:۱۲۱) (اور اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب تم صبح اپنے گھر سے روانہ ہو کر ایمان والوں کو لڑائی کے لیے مورچوں پر (موقع بہ موقع) متعین کر رہے تھے۔) اور لغوی لحاظ سے فقط تَبَوَّاَ کا استعمال اس وقت ہوتا ہے جب کسی رہائشی جگہ کی فضا اور ماحول رہنے والے کی طبیعت کے موافق اور ساز گار ہو یا کوئی شخص جس مقصد کے لیے کسی جگہ کا انتخاب کرتا ہے وہ اس کے لیے موافق اور ساز گار ہو۔ عہدِ جاہلیت میں عرب جنگ کے دوران کروفر کے اصول کے تحت لڑتے تھے۔وہ دشمن پر حملہ کرتے( کرّ) اور جب اپنے اندر کوئی کمزوری دیکھتے تو بھاگ گھڑے ہوتے۔(فرّ) اس کے بعد پھر لوٹ کر حملہ آور ہوتے اور جب تک جنگ جاری رہتی بغیر کسی ضابطہ یا نظام کے اسی طرح لڑتے رہتے۔اس طریق جنگ میں نہ کوئی نظم رہ سکتا تھا اور نہ ہی کامیابی کی کوئی ضمانت ہوسکتی تھی۔اس لیے مسلمانوں کو باقاعدہ صف بندی کا حکم دیا گیا ۔ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنَّ اللّٰهَ يُحِبُّ الَّذِيْنَ يُقَاتِلُوْنَ فِيْ سَبِيْلِهٖ صَفًّا كَاَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَّرْصُوْصٌ Ć۝﴾ (۶۱:۴) (اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں سے محبت رکھتا ہے جو اس کی راہ میں یوں صفیں باندھ کر لڑتے ہیں جیسے سیسہ پلائی دیوار ہے۔) چنانچہ دورِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسلمان نماز کی طرح ہی جنگ کے لیے بھی صف بندی کرتے تھے۔شانہ سے شانہ ملائے دشمن کی طرف بڑھتے اور ایک انچ بھی صف سے آگے پیچھے نہ ہوتے۔جب تک فوج صف بہ صف نہ ہو اس وقت تک اس کے مختلف شعبوں کا توازن صحیح نہیں رہ سکتا۔تیرانداز‘ شمشیرزن‘ نیزہ بردار اور سوار مختلف سمتوں اور مختلف رفتار سے میدان جنگ میں استعمال کیے جاتے تھے۔مگر ان میں توازن اسی صورت میں قائم رکھا جاسکتا تھا۔جب ان میں ہر ایک اپنی اپنی صف میں جگہ پہچان لیتا۔اورپھر اسے قائم رکھتا ورنہ احتمال رہتا تھا کہ سوار کہیں وقت سے پہلے یا وقت کے بعد دشمن سے ملاپ نہ کر پائے۔اس قسم کے بے ترتیبی میں شکست کے امکان پیدا ہو جاتے ہیں۔ پڑا ؤ کے انتخاب اور صف بندی کے دوران سورج کی روشنی اور ہوا ؤ ں کے رخ کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔تاکہ دشمن کی تلواروں کی حرکت سے مسلمانوں کی آنکھیں چندھیانہ جائیں ۔اور ہوا ؤ ں کے ر خ کے متعلق صحیح انتخاب کا ہی یہ نتیجہ تھا۔کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عین اس وقت جب