کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 72
آج مسلمانوں کے ’’دوست غیر مسلم ممالک‘‘ اقتصادی امداد کے نام پر فنی ماہرین بھی ساتھ بھیجتے ہیں- جو فنی مہارت کا کام تو کم ہی سر انجام دیتے ہیں۔ البتہ ملک کے راز بڑی سرگرمی سے اپنی حکومتوں کو مہیا کرتے رہتے ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمان ملکوں کی حکومتوں کے آئے دن تختے الٹائے جاتے ہیں- غیر مسلم دوستوں سے مشترکہ دفاع کے سمجھوتے بھی نہیں کیے جاسکتے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَلَا تُجَادِلْ عَنِ الَّذِيْنَ يَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَھُمْ ۭاِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنْ كَانَ خَوَّانًا اَثِــيْمًا ١٠٧؀ڌ﴾(۴:۱۰۷) (جو لوگ خود اپنے نفس سے دھوکہ کرتے ہیں ان کی حمایت میں نہ لڑو- اللہ ایسے لوگوں کو پسند نہیں کرتا جو دغا باز اور بد کردار ہوں) (۳) غیر مسلم ممالک سے دوستی کا تیسرا نقصان یہ ہوتا ہے کہ ثقافت کے نام پر اس ملک کے باطل نظریات مسلمانوں میں پرورش پانے لگتے ہیں- فحاشی اور بے حیائی کا دور دورہ شروع ہو جاتا ہے- اور جن منکرات کے استیصال کے لیے جہاد فرض قرار دیا گیا ہے- وہ شعوری یا غیر شعوری طور خود مسلمان ممالک میں فروغ پانے لگتے ہیں- (۲)معاہدات: دوسرے ممالک سے برابر کی سطح پر معاہدات کرنے کی اجازت ہے- یہ معاہدات امن و صلح کے بھی ہو سکتے ہیں تجارتی بھی اور امان کے بھی- مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ خوب سمجھ کر معاہدات کریں- کیونکہ جب کوئی قوم صلح کی پیش کش کرے یا کوئی فرد یا قوم امان مانگے تو مسلمان پر اسے قبول کرنا لازم ہو جاتا ہے- ان معاہدات کو ایفا کرنا مسلمان کی اولین ذمہ داری ہے- خواہ دشمن اس طریق سے مسلمانوں کو دغا دے جائے- اگر ایسی صورت ہو تو دشمن کو معاہدہ کے کینسل کر دینے کا الٹی میٹم دینا ضروری ہے- بعد میں مناسب کاروائی کی جاسکتی ہے- ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِمَّا تَخَافَنَّ مِنْ قَوْمٍ خِيَانَةً فَانْۢبِذْ اِلَيْهِمْ عَلٰي سَوَاۗءٍ اگر تمہیں کسی قوم سے خیانت کا اندیشہ ہو تو اس کے معاہدے کو علانیہ اس کے آگے پھینک دو- یعنی معاہدہ منسوخ اور اب ہر فریق اپنی اپنی جگہ آزاد ہے- جیسی کاروائی مناسب سمجھے کرے-