کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 71
(۱۳) جنگ اور تعلقات خارجہ
جنگ کا خارجہ پالیسی کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اس سلسلہ میں مسلمانوں کو مندرجہ ذیل ہدایات دی گئی ہیں-
(۱) دوسانہ تعلقات:
غیر مسلم اقوام سے صلح کے معاہدے تو کرنے کی اجازت ہے لیکن دوستانہ تعلقات قائم کرنے کی اجازت نہیں- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّيْ وَعَدُوَّكُمْ اَوْلِيَاۗءَ﴾ (۶۰:۱)
(اے ایمان والو! میرے اور اپنے دشمنوں کو جو غیر مسلم ہیں دوست نہ بنا ؤ -)
اس کی وجوہ مندرجہ ذیل ہیں:
(۱) کافر مسلمان کا حقیقی خیر خواہ کبھی نہیں بن سکتا- اس کی دوستی صرف اس وقت تک ہوگی جب تک اس کا اپنا مفاد وابستہ ہوگا- ذرا بھی مفادات میں فرق آیا تو وہ اسی وقت کفر کی دوسری طاقتوں سے مل جائے گا- ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿لَا تَجِدُ قَوْمًا يُّؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ يُوَاۗدُّوْنَ مَنْ حَاۗدَّ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ وَلَوْ كَانُوْٓا اٰبَاۗءَهُمْ اَوْ اَبْنَاۗءَهُمْ اَوْ اِخْوَانَهُمْ اَوْ عَشِيْرَتَهُمْ ۭ﴾ (۵۸:۲۲)
(تمہیں ایسی کوئی قوم نہ ملے گی جو اللہ اور قیامت پر ایمان بھی رکھے پھر ایسی قوم سے دوستی بھی رکھے جو اللہ اور رسول کی مخالفت کرتی ہو- چاہے وہ ان کے باپ ہوں یا ان کے بیٹے یا بھائی یا دوسرے رشتہ دار-)
(۲) غیر مسلم کی دوستی سے ملکی اور فوجی راز افشا ہونے کا ہر وقت خطرہ رہتا ہے- کیونکہ جس سے دوستی ہو اس سے ایسے راز چھپانا ناممکن ہوتا ہے-
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
﴿يٰٓاَيُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَةً مِّنْ دُوْنِكُمْ لَا يَاْلُوْنَكُمْ خَبَالًا ۭ وَدُّوْا مَا عَنِتُّمْ ۚ ﴾ (۳:۱۱۸)
(اے ایمان والو! اپنوں کے سوا کسی دوسرے کو راز دار مت بنا ؤ - یہ لوگ تمہارے نقصان میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیںگے- تمہارے نقصان اور تمہاری تکلیف میں ان کی خوشی ہے-)