کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 70
((رِبَاطُ یَوْمٍ فِی سَبِیْلِ اللّٰه خَیْرٌ مِنَ الدُّنْیا وَمَافِیْها-)) (بخاری- کتاب الجهاد والسیر- باب رباط یوم فی سبیل الله) (ایک دن رباط یعنی سرحدی چوکیوں میں بسرکرنا دنیا میں او ر جو کچھ اس میں ہے سب سے بہتر ہے) ایک دوسرے مقام پر یوں فرمایا: ((رِبَاطِ یَوْمٍ وَلَیلَةٍ خَیْرٌ مِنْ صِیَامِ شَهْرٍ وَقِیَامِهٓ اِنْ مَاتَ جرٰی علیه عمله الذی یَعْمَلُه وَاَجَری علیه رزقه وَامَنَ الْفَتَان-)) (مسلم- کتاب الجهاد- باب تفضیل الرباط) (ایک دن رات پہرہ چوکی دنیا ایک ماہ کے روزہ اور قیام سے بہتر ہے- اگر (پہرہ دار) مر جائے گا تو اس کا یہ عمل جاری رہے گا اور اس کو اس پر اجر دیاجائے گا اور فتنوں سے وہ امن میں رہے گا-) بعض فقہا ء رباط کو جہاد فی سبیل اللہ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے ہیں- وجہ یہ ہے کہ جہاد غیر مسلموں سے کیا جاتا ہے اور رباط خود مسلمانوں کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے۔ اسلامی ریاست کے ابتدائی سالوں میں مدینہ کے اردگرد بسنے والے مشرک قبائل آپس میں گٹھ جوڑ کر کے مدینہ پر حملہ کرتے رہتے تھے- آپ صلی اللہ علیہ وسلم ن کے حالات سے ہر لحظہ باخبر رہتے اور جب محسوس کرتے کہ کوئی مدینہ کی طرف بری نظروں سے دیکھ رہا ہے تو فوراً خود وہاں پہنچ جاتے یا سرایا بھیج دیتے- صلح حدیبیہ سے پہلے اکثر ایسے واقعات پیش آتے رہے- اور بسا اوقات یوں ہوا کہ دسمن اسلامی دستوں کی خبر پا کر تتر بتر ہو جاتا تھا۔ ۹ھ میں جبکہ عرب کا بیشتر حصہ اسلام کے زیر نگین آچکا تھا- شام کی سرحد پر عرب عیسائیوں نے جو قیصر روم کے زیر اثر تھے- مسلمانوں کی سرحد پرفوج اکٹھی کرنا شروع کر دی تھی- غزو ۂ تبوک اسی وجہ سے پیش آیا تھا لیکن اسلامی لشکر کے پہنچنے سے پہلے ہی دشمن کا لشکر منتشر ہوگیا اور جنگ کی نوبت ہی نہیں آئی۔ دورِ فاروقی میں جب اسلامی سلطنت کی سرحدیں بہت وسیع ہوگئیں- تو سرحدوں پر فوجی چھا ؤ نیاں قائم کر دی گئیں جہاں ہر وقت فوج موجود رہتی تھی تاکہ دشمن کی نقل و حرکت کی بروقت سرکوبی کی جاسکے۔