کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 67
((وَکَانَ یَوْمُ عِیْدٍ یَلْعَبُ السُّوْدَانُ بِالدَّرْقِ وَالْحَراب فَاِمَّا سَالْتُ رَسُوْلَ الله صلی الله علیه وسلم وَاِمَّا قَالَ لِیْ ’’تَشْتَهِيْنَ اَنْ تَنْظُرِیْ؟‘‘ فَقُلْتُ ’’نَعَمْ‘‘ فَاَقَا مَنِیْ ورآئَه خَدِّیْ عَلیٰ خَدِّه وَ یَقُوْلُ: ’’دُوْنَکُمْ بنی اِرْفَدَة ‘‘ حَتّٰی اِذَا مَلِلْتُ قَالَ: حَسْبُكِ؟ قُلْتُ۔ ’’نَعْمْ‘‘! قَالَ ’’فَاذْهَبِیْ‘‘-) ) (بخاری حواله ایضاً) (یہ عید کا دن تھا۔ حبشی سپر اور برچھوں سے کھیل رہے تھے یا تو میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی فرمایا۔ ’’کیا تو یہ تماشا دیکھنا پسند کرتی ہے‘‘؟ میں نے کہا ’’جی ہاں‘‘۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا۔ میراگال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گال پر تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیشوں سے فرما رہے تھے ’’بنی ارفدہ! کھیل تماشا جاری رکھو‘‘۔ میں تماشہ دیکھتے دیکھتے خود ہی تھک گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا۔ ’’بس طبیعت سیر ہو گئی؟ میں نے عرض کیا’’جی ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اچھا چلی جا ؤ ‘‘۔ ) تلوار کے استعمال سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اتنی دلچسپی تھی کہ بسا اوقات دوران جنگ آپ تلوار گلے میں لٹکائے رکھتے تھے۔ امام بخاری نے اس کتاب میں ایک مستقل باب قائم کیا ہے جس کا عنوان ہے الجنہ تخت بارقۃ السیوف۔ یعنی جنت تلواروں کے سایہ تلے ہے۔ نیزہ اور اس کے استعمال سے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((جُعِلَ رِزْقِیْ تَحْتَ ظِلِّ رَمْحِیْ وَ جُعِلَ الذِّلَّةُ وَالصَّغَارُ عَلیٰ مَنْ خَالَفَ اَمْرِیْ-)) (بخاری کتاب الجهاد -باب ماقیل فی الرماح) (میری روزی بھالے کے سائے تلے ہے اور جو میرا حکم نہ مانے اس پر ذلت اور خواری مسلط ہو گی۔ ) آج کے مشینی دور سے پہلے جنگ میں بطور سواری اکثر گھوڑے ہی استعمال ہوتے تھے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے قوت یعنی آلات حرب کے ساتھ گھوڑوں کو پال پوس کر تیار رکھنے کی بھی تاکید فرمائی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَنِ احْتَبَسَ فَرْساً فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ اِیْمَاناً بِاللّٰهِ وَتَصْدِیْقاً بِوَعْدِه فَاِنَّ شِبْعَه وَرِیَّه وَرَوْثَتَه وَبَوْلَه فِیْ مِیْزَانِه یَوْمَ الْقِیَامَةِ)) (بخاری کتاب ایضا) (جس شخص نے ایمان کے ساتھ اللہ کے وعدے کو‘ جو اس نے مجاہدین سے کیا ہے۔ سچا سمجھ کر جہاد کے لئے گھوڑا باندھ رکھے‘ تو