کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 58
ہو کر جنگ میں شمولیت اختیار کی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے آپ کو لکھا کہ: ((فَاِنَّکِ خَرَجْتِ غاضِبَةً لِلّٰهِ وَ لِرَسُوْلِه تَطْلُبِیْنَ امْرًا کَانَ عَلَیْكِ مَوْضُوْعاً- مَابَالُ النسوةِ والحرب وَاِصْلَاحٍ بَیْنَ النَّاس-)) (الامامه والسیاسیه ابن قتیبه ص۷۰) (آپ صلی اللہ علیہ وسلم للہ اور اس کے رسول کے حکم قصاص کے لئے غضبناک ہو کر ایک ایسے معاملہ کے لئے نکلی ہیں جس کی ذمہ داری سے آپ سبکدوش تھیں بھلا عورتوں کا جنگ اور لوگوں کے درمیان مصالحت سے کیا تعلق؟) اور حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جیسے بزرگ صحابی‘ جو اس جنگ میں غیر جانب دار رہے تھے نے اس واقعہ کے متعلق یوں کہا تھا کہ: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنھاکا گھر ان کے ہو دج سے بہتر ہے‘‘۔ (حوالہ ایضاً ص۶۰) اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ خود حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا کو اس شمولیت کا زندگی بھر افسوس رہا۔ جب یہ آیت ’’فی بیوتکن‘‘ کی تلاوت فرماتیں تو اتنا روتیں کہ دوپٹہ بھیگ جاتا۔ (تفہیم القرآن ج ۴ص ۹۱) البتہ عورتیں بالواسطہ جنگ میں حصہ لے سکتی ہیں۔ جس کی تفصیل آگے آئے گی۔ (۳)بالغ اور سلیم العقل ہو : بچوں اور دیوانوں کو اس وقت تک جنگ میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی جب تک کہ وہ بالغ اور تندرست نہ ہو جائیں۔ جنگ بدر سے متعلق حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ((اُسْتَصْغِرتُ اَنَا وَابْنُ عمر-)) (بخاری کتاب المغازی۔ باب عدة اصحاب بدر) (میں اور عبداللہ بن عمر دونوں (بدر کے دن) چھوٹے سمجھے گئے۔) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لڑائی میں جانے سے پیشتر جہاد میں شامل ہونے والی فوج کو ملاحظہ فرماتے۔ جو لڑائی کے قابل نہ ہوتے انہیں منظور نہ کرتے جنگ بدر کے موقع پر حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی عمر ۱۳ برس تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منظور نہ کیا۔ پھر احد کے دن پیش کیے گئے جبکہ ۱۴ برس کے تھے‘ تب بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت نہیں دی۔ اور جنگ ِ خندق کے وقت آپ رضی اللہ عنہ کی عمر