کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 53
حضرت عبداللہ بن جحش رضی اللہ عنہ کی سرکردگی میں روانہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک سربمہر لفافہ دیا اور حکم دیا کہ تین دن بعد تم نخلہ کے مقام پر پہنچ جا ؤ گے۔ وہاں جا کر اسے کھولنا اور اس کے مطابق عمل کرنا۔ تین دن بعد جب حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نخلہ پہنچ گئے تو لفافہ کھول کر دیکھا تو لکھا تھا کہ قریش کی نقل و حرکت کے متعلق پوری واقفیت حاصل کر کے واپس آ کر مجھے اطلاع دو‘‘؟ (یہ واقعہ ’’طلایہ گردی‘‘ کے عنوان کے تحت ذرا تفصیل سے گزر چکا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو فوجی دستے روانہ کرتے ان کو قبل از وقت‘ معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔ اس انداز تربیت سے مجاہدین میں بھی فوجی راز کو رازکھنے کی اہلیت پیدا ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کبھی غزوہ پر جاتا ہوتا تو عموماً غیر معروف اورر پرپیچ راستے اختیار فرماتے۔ جس کا مقصد محض یہ ہوتا تھا کہ دشمن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نقل و حرکت سے مطلع نہ ہونے پائے۔ کبھی یوں بھی ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی منزل تو کوئی اور ہوتی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم استفسارات کسی دوسرے مقام کے متعلق کرتے۔ یا مبہم اور ذومعنی الفاظ استعمال کرتے۔ حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: ((وَلَمْ یَکُنْ رَسُوْلُ اللّٰهِ صَلیَّ اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ یُرِیْدُ غَزْوَةً اِلاَّ وَرّٰی بِغَیْرِهَا-)) (بخاری۔ کتاب المغازی۔ غزوه تبوک) (اور آنحضرت اجب کسی غزوہ کا ارادہ فرماتے تو کسی اور موقع کا تور یہ فرماتے تھے۔) علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ نبی مصطلق میں پوشیدہ تحریر کا طریقہ ایجاد کیا طبری ج ۲۔ ص۶۰۶ رازداری کے اس طریق سے دنیا پہلے متعارف نہ تھی یہی طریق ترقی کر کے آج کل Code Words کی صورت اختیار کر گیا ہے۔ اسی رازداری کا دوسرا پہلو یہ ہے۔ کہ جہاں اپنی نقل و حرکت کو حتی الامکان صیغہ راز میں رکھا جائے وہاں دشمن کے حالات سے متعلق زیادہ سے زیادہ‘ صحیح اور مستند خبریں مہیا کی جائیں۔ عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ کے واقعہ میں آپ دیکھ آئے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سربمہر لفافہ دیاتو اس میں یہی لکھا تھا کہ ’’دشمن کے حالات معلوم کر کے بواپسی اطلاع دی جائے۔ ‘‘ دشمن سے متعلق موصول شدہ اطلاعات کی صحت کے متعلق آپ کو اتنا اہتمام تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف ان فوجی دستوں کی اطلاعات کو ہی کافی نہیں سمجھا بلکہ مختلف حلیف و حریف قبائل