کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 44
۱۰۰نفوس پر مشتمل تجارتی قافلہ امیہ بن خلف کی سرکردگی میں جاتے ہوئے ملا لیکن اس سے کچھ تعرض نہیں کیا گیا۔ (۴) قریش مکہ کے بھی ایسے دستے مدینہ کے احوال کا پتہ چلانے آتے تھے۔ چنانچہ اسی ماہ یعنی ربیع الاول ۲ ھ میں کر زبن جابر الفہری کی سرکردگی میں ایک دستہ مدینہ پہنچا۔ اس نے مدینہ کی چراگاہ پر حملہ کیا اور اہل مدینہ کے مویشی لوٹ کر لے گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۷۰ آدمیوں کی معیت میں صفوانؔ جو بدر کے نزدیک ایک مقام ہے تک اس کا تعاقب کیا۔ لیکن وہ ہاتھ نہ لگا۔ یہ غزو ۂ صفوان یا غزو ۂ بدر الاولیٰ کے نام سے مشہور ہوا۔ (۵) رجب ۲ ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۱۲ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ حضرت عبداللہ بن حجشص کی سرکردگی میں بھیجا۔ تاکہ قریش کے اس قافلہ کی خبر لائے جو بنو امیہ کی سرکردگی میں جا رہا تھا یہ سریہ نخلہ کے نام سے مشہور ہوا۔ دونوں قافلوں کی مڈ بھیڑ ہو گئی۔ قافلہ قریش میں ایک نامور شخص عمروبن حضرمی، جو تمام قریش کے سردار عتبہ بن ربیعہ کا حلیف تھا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ کے ایک ساتھی واقد بن عبداللہ تمیمی کے تیر سے مارا گیا۔ دو آدمی گرفتار ہوئے اور مال غنیمت بھی ہاتھ آیا۔ عبداللہ بن حجش رضی اللہ عنہ نے واپس مدینہ آ کر یہ صورتِ حال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سخت برہم ہوئے اور فرمایا: ((صَنَعْتُم مَالَمْ تؤمَروا به وَ قاتلتم فی الشَّهْرِ الحرامِ ولم تومروا القتال)) (طبری ج ا۔ غزوہ بدر کے تحت) (تم نے وہ کام کیا جس کا تمہیں حکم نہیں دیا گیا تھا۔ پھر تم ماہ حرام میں لڑے جس کا تمہیں حکم نہ تھا۔) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت قبول کرنے سے بھی انکار کر دیا۔ گو بعد میں قیدی بھی رہا کر دیئے تھے اور مقتول کا خونبہا بھی ادا کر دیا گیا (رحمتہ للعالمین ج ۲ ص ۱۸۷ )تاہم قریش نے ماہ حرام میں لڑنے کے واقعہ کو اتنا اچھالا کہ یہی واقعہ غزو ۂ بدر کا فوری سبب بن گیا۔ (۶) جنگ احزاب ختم ہونے کو تھی۔ ایک رات سخت سردی ہو گئی۔ ٹھنڈی ہوا جسموں کو چھیدتی ہوئی نکل رہی تھی۔ اس حال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھا ’’کوئی ہے کہ جو جا کر دشمن کی خبر لائے‘‘۔ سردی کی شدت اوردشمن کے کیمپ میں