کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 39
ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین کیا گیا تھا۔ یہ میثاق ۵۲ دفعات پر مشتمل ہے۔ اس میں مندرجہ ذیل دفعات بالخصوص حربی پہلو سے تعلق رکھتی ہیں: (۱) یہ کہ مدینہ کی کل آبادی کو ایک سیاسی وحدت قرار دیا گیا جسکا مطلب یہ تھا کہ اگر مدینہ پر باہر سے حملہ ہوا جس کا ہر وقت کھٹکا لگا رہتا تھا، تو مدینہ کے تمام باشندے مل کر دشمن کا دفاع کریں گے۔ (۲) مصارف دفاع میں یہودی اپنے حصہ کی رقم ادا کریں گے۔ (۳) یہود اپنے مذہبی شعار کی ادائیگی میں پوری طرح آزاد ہوں گے۔ (۴) مدینہ کے ایسے قبائل جو نہ یہودی تھے اور نہ ہی انہوں نے ابھی تک اسلام قبول کیا تھا۔ کے لئے تابعین کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ ان سے یہ معاہدہ ہوا کہ خون بہا، فدیہ، انصاف اور نیکی کے کاموں میں ان کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی جائے گی۔ ان کی قبائلی روایات کا احترام کیا جائے گا۔ اس کے عوض وہ شہر کے مشترکہ دفاع اور حصہ رسدی اخراجات جنگ کو برداشت کرنے کے ذمہ دار قرار دیئے گئے۔ (۵) اگر اس سلسلہ میں آپس میں کوئی تنازعہ پیدا ہو جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم تسلیم کیا جائے گا۔ گویا اس معاہدہ کی رو سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بالادستی بھی تسلیم کر لی گئی۔ اور اندرونی استحکام کی طرف سے بھی کسی حد تک اطمینان ہو گیا۔ (۴) حرم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تعین: چوتھا اقدام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیا کہ مکہ کی طرح مدینہ کو بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم قرار دیا۔ جسے آج کی سیاسی زبان میں اوپن سٹی Open City کہا جاتا ہے جسکا مطلب یہ ہے کہ اہل شہر اس کے اندر یا اس کے گرد و نواح میں جنگ نہیں کرنا چاہتے۔ پہلی جنگ عظیم میں ترکی اور برطانیہ نے بیت المقدس کو ’’اوپن سٹی‘‘ یا حرم قرار دیا تھا۔ اور عالمگیر جنگ میں فرانس کی استدعا پر ’’پیرس‘‘اوپن سٹی قرار پایا۔ چنانچہ جرمن نے اس پر بمباری نہیں کی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ کو حرم قرار دینے کا مقصد یہ تھا کہ قریش مکہ جو حرم مکہ کی وجہ سے بہت حد تک محفوظ و مامون سمجھے جاتے تھے اگر مدینہ پر حملہ آور ہوں گے تو قبائل عرب میں حرم کی قدر کا وقار خود بخود گر جائے گا۔ لہٰذا اس خطرہ کے پیش نظر قریش مکہ مدینہ پر حملہ آور ہونے میں ایک