کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 37
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلسل تیرہ سال کی جدوجہد سے ایک مٹھی بھر جماعت تیار کر لی۔ جو اسلام کے شیدائی اور آپ کے جانثار تھے۔ قریش مکہ نے ان لوگوں کا عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا۔ اور یہ لوگ بیچارے مسلسل ان کے ظلم و ستم سہتے رہتے تھے۔ تا آنکہ ۱۳ سال بعد ان ظلم رسیدہ لوگوں کو مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ چلے جانے کی اجازت مل گئی۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس دن ہجرت کی اجازت ملی جس دن قریش کے پورے قبائل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جان ہی سے ختم کر دینے کی خفیہ سازش تیار کر کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کا محاصرہ کیے بیٹھے تھے۔ مدینہ کی ریاست: ان حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھی مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں آ کر ایک چھوٹی سی آزاد خود مختار ریاست کی تشکیل کی۔ اس ریاست کے باشندوں کی تعداد بشمول مہاجرین مکہ پانچ سونفوس سے زائد نہ تھی۔ انہی حالات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاد فی سبیل اللہ یعنی قتال کا فریضہ سرانجام دینا تھا۔ چنانچہ پہلی آیت جو اس سلسلہ میں نازل ہوئی وہ یہ تھی: {اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا ۭ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰي نَصْرِهِمْ لَقَدِيْرُۨ 39؀ۙ} (۲۲:۳۹) (جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی رہی ہے ان کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ ان پر ظلم ہوا اور اللہ تعالیٰ یقیناً ان کی مدد پر قادر ہے۔) گویا جو مسلمان آج تک کفار عرب کے ظلم و ستم کی چکی میں پس رہے تھے۔ اور جنہیں آج تک صبر و استقامت کی تلقین کی جاتی رہی تھی مدینہ آ کر چھوٹی سی ریاست تشکیل دینے کے بعد انہیں ظلم سے نجات حاصل کرنے اور ظالموں کو ظلم سے روکنے کے لئے جنگ کی اجازت مل گئی۔ اب ہم یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ اس چھوٹی سی نوزائیدہ ریاست کی مختصر سی فوج کے سپہ سالار (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ) نے جہاد فی سبیل اللہ کا یہ فریضہ کس حسن و خوبی سے سرانجام دیا۔ (ا) جہاد کی تیار ی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حربی مہارت فنِ حرب اور سیاسی دفاع کے ماہرین کے نزدیک جنگ کی تیار میدان جنگ سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ کیونکہ جنگ کی تیاری ہی وہ اصل بنیاد ہوتی ہے جس پر فتح و شکست کا