کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 32
ہیں۔ ہم کیسے ان کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ تم اور تمہارا خدا جا کر ان سے لڑو ہم تو بس یہیں بیٹھیں گے‘‘۔ بعینہ یہی ذہنی کیفیت ہمارے ان دوستوں کی ہے۔ جہاد بالسیف سے ان لوگوں کے انکار کی دوسری وجہ یہ ہے کہ مستشرقین نے سارا زور اس بات پر صرف کر دیا کہ اسلام تلوار کے ذریعہ پھیلا تھاتو ہمارے مغرب زدہ دوستوں نے معذرت خواہانہ روش اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھی اور آئندہ کے لئے جہاد بالسیف کا نام لینے سے بھی کانوں کو ہاتھ لگایا۔ ہندوستان میں انگریز مسلمانوں کی جہاد کی تحریک سے بہت خائف تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ ایک تو مسلمانوں میں تفرقہ ڈال دیا جائے دوسرے ان سے جہاد کی روح کو کسی نہ کسی طرح ختم کر دیا جائے۔ انہیںایام میںمرزاغلام احمد قادیانی نے نیا نیا نبوت کا دعویٰ کیا تھا۔ اس سے نبی کی ذات میں انگریز کو اپنی آرزو پوری ہوتی نظر آنے لگی چنانچہ انگریزنے مرزائیوں پر اپنی نوازشات کی بارش کر دی۔ مرزائیوں کو حکومت میں اعلیٰ مناصب عطا کئے گئے اور انہیں ہر طرح کی مراعات دیں جن کے خودمرزا غلام احمد دل و جان سے معترف تھے۔مرزا صاحب نے انگریز بہادر کی نوازشات کا حق یوں ادا کیا کہ ایک تو دوسرے مسلمانوں کو کافر قرار دے کر تفرقہ بازی اور انتشار کا سبب بنا دیا دوسرے جہاد جس کی فضیلت و اہمیت سے کتاب و سنت بھرے پڑے ہیں اس کو منسوخ قرار دیتے ہوئے یوں فتویٰ دیا کہ: اب چھوڑ دوجہاد کا اے دوستو خیال دیں کے لئے حرام ہے اب جنگ اور قتال اب آگیا مسیح جو دیں کا امام ہے دیں کی تمام جنگوں کا اب اختتام ہے دشمن ہے وہ خدا کا جو کرتا ہے اب جہاد منکر نبی کا ہے جو یہ رکھتا ہے اعتقاد کیوں چھوڑتے ہو لوگو نبی کی حدیث کو جو چھوڑتا ہے چھوڑ دو تم اس خبیث کو (درثمین ص ۵۳) اس طرح اس قادیانی کی وساطت سے انگریز کے تو دونوں مقاصد پورے ہو گئے۔ مگرامت مرحومہ کے اذہان سے جہاد کی رہی سہی اہمیت کو ختم کر دینے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور صرف کیا گیا۔ جو قوم پستی کے اس مقام پر پہنچ چکی ہو کہ جہاد کا نام سنتے ہی یا لرزنے لگ جائے یا معذرت کرنے لگے تو سمجھ لیجئے کہ ابھی مزید اتھاہ گہرائیوں میں گر کر دم لے گی۔ مسلمانوں پرویسے