کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 31
اب ہم دوسری طرف آتے ہیں جس طرح بعض علماء و فقہاء نے جہاد کو اس کے اصل مقام سے بڑھا کر اسے اسلام کا چھٹا رکن اور فرض عین قرار دینے کی کوشش کی ہے اسی طرح کچھ حضرات ایسے بھی ہیںد جو تفریط کی طرف چلے گئے اور انہوں نے جہاد کے درجہ کو اتنا پست کیا کہ جہاد بالسیف کی فرضیت کو ہی ختم کر ڈالا۔ ان حضرات کی دلیل یہ ہے کہ اگر جہاد کا وسیع مفہوم یعنی ’’سعی بلیغ‘‘ پیش نظر رکھا جائے تو اسے لازماًر زم و پیکار کے معنی نہیں نکلتے اس لئے کہ اللہ کی راہ میں سعی بلیغ پر امن ذرائع سے بھی ہو سکتی ہے اور تلوار کے ذریعہ بھی۔ دیکھنا صرف یہ چاہئے کہ کس دور میںمیںکونسا ذریعہ زیادہ موثر ہو گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور نبوت کا بیشتر حصہ اس پر امن ذریعہ تبلیغ میں صرف کیاتھا، آج کا دور پروپیگنڈا کادور ہے لہذا مسلمانوں کو تمام تر توجہ اس پہلو پر صرف کرنی چاہئے۔ ہمیں ان حضرات سے قطعاً اتفاق نہیں کیونکہ: (۱) دور نبوی میں بھی پروپیگنڈا کا ایک موثر ذریعہ موجود تھا۔ آج پروپیگنڈا کے ذرائع اخبارات و رسائل، ریڈیو اور ٹی وی ہیں، اس دور میں پروپیگنڈا کے وسائل گھوم پھر کر آگ لگا دینے والے شاعر اور خطیب ہوتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فی الواقع دور نبوت کا بیشتر حصہ پر امن تبلیغ میں نہیں بلکہ ظلم و ستم برداشت کر کے تبلیغ کرنے میں صرف کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی افصح العرب و العجم تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ساتھی بھی میسر آ گئے تھے لیکن ان سب باتوں اور مراحل کے بعد بھی تلوار کے ذریعہ تبلیغ کی ضرورت باقی رہی۔ (۲) قرآن کریم اور احادیث میں جہاد کی اہمیت و فرضیت پر جتنا زور دیا گیا ہے ان کی موجودگی میں ایک سلیم العقل انسان یہ تصور بھی نہیں کر سکتا کہ جہاد بالسیف کسی وقت ساقط بھی ہو سکتا ہے اور کئی احادیث صحیحہ میں یہ وضاحت بھی موجود ہے جہاد تا قیامت باقی ہے جن کی تفصیل کا یہ موقعہ نہیں۔ ہمارے خیال میں جہاد بالسیف سے فرار کا ذہن مسلمانوں کے دور انحطاط کی پیداوار ہے۔ غلامی کا طویل دور انسان میںجبن اور بزدلی پیدا کر دیتا ہے۔ لہٰذا اب اسے جہاد سے نفرت ہونے لگی ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نکال کر لائے۔ پھر جہاد کیلئے کہا تو ان میں بزدلی اس قدر گھر کر چکی تھی کہ کہنے لگے: ’’موسیٰ! وہاں کے لوگ بڑے طاقتور