کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 30
حقیقت ہے اور وہ یہ ہے کہ جہاد کو نہ تو اسلام کا چھٹا رکن قرار دیا جا سکتا ہے اور نہ ہی فرض عین- اس کی وجوہ درج ذیل ہیں۔ (۱) رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بُنِیَ الْاِسْلَامُ عَلٰی خَمْسَةٍ-))(مسلم۔ کتاب الایمان۔ بیان ارکان الاسلام) (اسلام کی بنیاد پانچ باتوں پر ہے۔) اگر جہاد اسلام کا چھٹا رکن ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم س کی تصریح فرما دیتے۔ (۲) اسلام کے ارکان کا اجتماعیت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ تاہم وہ مخصوص حالات میں انفرادی طور پر بھی بجا لائے جا سکتے ہیں۔ لیکن جہاد فی سبیل اللہ (یعنی جہاد بالسیف) ایک ایسا فریضہ ہے جس کا اجتماعیت کے بغیر تصور ہی ممکن نہیں۔ جہاد صرف امام کے تحت ہو سکتا ہے انفرادی طور پر بجا نہیں لایا جا سکتا۔ (۳) جہاد فی سبیل اللہ میں شمولیت کی ایک شرط والدین کی اجازت بھی ہے (جیسا کہ آئندہ تفصیل آئے گی) والدین بوڑھے اور خدمت کے محتاج ہوں تو اولاد کا یہی جہاد ہے کہ وہ ان کی ہر طرح سے خدمت کرے۔ مالی کمزوری بھی جہاد کی فرضیت کو ساقط کر دیتی ہے۔ بوڑھے، بچے، معذور، بیمار اور عورت کو جہاد کی ذمہ داری سے ویسے ہی سبکدوش کر دیا گیا ہے ۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ جہاد فرض عین نہیں ہو سکتا۔ (۴) کسی ماہر حرب کا مقولہ ہے کہ ایک شخص کو محاذ پر بھیجنے میںآٹھ مختلف قسم کے آدمیوں کا حصہ ہوتا ہے۔ کچھ لوگ اسلحہ تیار کرتے ہیں، کچھ لباس اور خوراک مہیا کرتے ہیں اور کچھ مالی تعاون کرتے ہیں، پھر جتنی فوج محاذ پر روانہ کی گئی ہو اس کے لگ بھگ وطن میںموجود رہنا بھی ضروری ہے تاکہ مرکز کمزور ہو کر دشمن کی نظروں میں نہ آ جائے۔ ان تمام باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ امت کے وہ افراد جو فی الواقع لڑنے کی اہلیت رکھتے ہیں وہ بھی پورے کے پورے جہاد میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اسی حقیقت کو اللہ تعالیٰ نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: {وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُوْنَ لِيَنْفِرُوْا كَاۗفَّةً } (۹:۱۲۲) اور مومنوں کے لئے ممکن نہ تھا کہ سب کے سب نکل کھڑے ہوں۔