کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 29
قیامت کے دن تین شخص شہید، عالم اورسخی پیش کیے جائیں گے۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ شہید سے پوچھیں گے کہ ’’بتا ؤ میں نے تمہیں زندگی، صحت اور طاقت دی تھی تم نے میرے لئے یعنی دین کی سربلندی کے لئے کیا کام کیا؟‘‘ وہ کہے گا: ’’الٰہی!میں نے اپنی سب سے قیمتی متاع یعنی جان کو تیری راہ میں قربان کر دیا‘‘۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: ’’تم اس لئے شہید ہوئے تھے کہ لوگ تمہیں بہادر کہیں اور تمہیں ناموری حاصل ہو وہ ناموری تمہیں حاصل ہو چکی، اب میرے پاس تمہارے لئے کوئی اجر نہیں‘‘۔
اسی طرح کے سوال و جواب عالم اور سخی سے بھی ہوں گے۔ (مسلم کتاب الجہاد- باب من قاتل للریاء والسمعۃ)
اس حدیث سے صاف واضح ہے کہ قومی مفادات پر جان دینے والے، ناموری اور شہرت کی ہوس میں مرنے والے، قوم و طن یا نسل و قبیلہ پر جان نثار کرنے والے پر لفظ شہید کا اطلاق نہیں ہوتا۔ شہید صرف وہ ہے جو تمام دنیوی اغراض سے بالاتر ہو کر فتنہ و فساد کو ختم کرنے اور اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ نظام حیات قائم کرنے کے لئے اللہ کی راہ میں اپنی جان کا ہدیہ پیش کرتا ہے۔ یہ خلوص جتنا زیادہ ہو گا اسی قدر اس کی فضیلت زیادہ اور درجات بلند ہوں گے جن میں کم سے کم درجہ عذاب دوزخ سے نجات اور جنت میں داخل ہونا ہے۔
فرضیت جہاد:
جہاد فی سبیل اللہ کے فرض ہونے میں تو کسی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ البتہ اس بات میں اختلاف ہے کہ جہاد فرض عین ہے یا فرض کفایہ؟ آسان الفاظ میں یوں کہہ لیجئے کہ جہاد آیا امت کے ہر فرد پر لازم ہے یا کچھ افراد کے جہاد میں حصہ لینے سے ساری امت اس فریضہ سے سبکدوش ہو جاتی ہے؟
جہاد کے متعلق قرآن و حدیث میں جس قدر تاکید آئی ہے اسے دیکھ کر کئی علمائے متقدمین و متاخرین نے اسے فرض عین قرار دیا اور بعض اسے اسلام کا چھٹا رکن بھی قرار دیتے ہیں۔ جہاد کی اہمیت اپنی جگہ مسلم اور آج کے دور انحطاط میں جبکہ مسلمان دنیا میں ہر جگہ ذلیل و خوار ہے اس کی اہمیت اور پروپیگنڈا پر جتنا زور اور قوت آپ چاہیں صرف کیجئے لیکن حقیقت بہرحال