کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 28
شہید کی فضیلت: جو مسلمان جہاد فی سبیل اللہ میں اپنی جان، جان آفرین کے سپرد کر دیتا ہے اس کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: {وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِيْنَ قُتِلُوْا فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتًا ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ يُرْزَقُوْنَ ١٦٩؁ۙ} (۳:۱۶۹) (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے جائیں ان کی نسبت یہ نہ سمجھو کہ وہ مر گئے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاںرزق دیئے جا رہے ہیں۔) اور ایک دوسرے مقام پر فرمایا: {وَلَا تَـقُوْلُوْا لِمَنْ يُّقْتَلُ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ اَمْوَاتٌ ۭ بَلْ اَحْيَاۗءٌ وَّلٰكِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ ١٥٤؁} (۲:۱۵۴) (جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے ان کومردہ نہ کہو بلکہ وہ تو زندہ ہیں اور لیکن تم اس کا شعور نہیں رکھتے۔) اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہید کا پہلا قطر ۂ خون گرنے کے ساتھ اس کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں اور وہ سیدھا جنت میں پہنچ جاتا ہے۔ ایک دفعہ جنگ کے دوران ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے لگا۔ اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جا ؤ ں تو سیدھا جنت میں جا ؤ ں گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شک‘‘ وہ کھجوریں کھا رہا تھا۔ اس نے کھجوریں پھینک دیں اور کہنے لگا اب میں کھجوریں بھی جنت میں ہی جا کر کھا ؤ ں گا۔ یہ کہا اور لڑتے لڑتے اللہ کی راہ میں جان دے دی۔ (بخاری کتاب المغازی- باب غزوۃ احد- مسلم کتاب الجہاد۔ باب ثبوت الجنۃ للشہید) شہید کا خون قوم کی زندگی کے لئے آب حیات ثابت ہوتا ہے اور اگر یہ خالصتاً اللہ کی خوشنودی اور اعلائے کلمۃ اللہ کے لئے ہو تو پھر اس کے مرتبہ و مقام کے کیا ہی کہنے۔ مگر جب اس شہادت جیسے عمل میں بھی کوئی اور غرض شامل ہو جائے تو قوم کے لئے تو شاید آب حیات ثابت ہو مگر اللہ کے ہاں اس کی کچھ فضیلت نہیں صحیح مسلم میں مروی ہے کہ: