کتاب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بحیثیت سپہ سالار - صفحہ 278
٭ اس نے کبھی اپنی ذات کے لیے اپنے برا کہنے والوں سے بدلہ نہیں لیا اور اپنے ذاتی دشمنوں کے حق میں دعائے خیر کی اور ان کا بھلا چاہا لیکن خدا کے دشمنوں کو اس نے کبھی معاف نہ کیا۔ حق کا راستہ روکنے والوں کو ہمیشہ جہنم کی دھمکی دیتا اور عذاب الٰہی سے ڈراتا رہا۔ ٭ عین اس وقت جب اس پر ایک تیغ زن سپاہی کا دھوکہ ہوتا ہو اور وہ ایک شب[1] زندہ دار زاہد کی صورت میں جلوہ نماہوتا ہے۔ ٭ عین اس وقت جب اس پر کشور کشا فاتح[2] کا شبہ ہو وہ پیغمبرانہ معصومیت کے ساتھ ہمارے سامنے آتا ہے۔ ٭ عین اس وقت جب ہم اس کو شاہ عرب کہہ کر پکارنا چاہتے ہیں وہ کھجور کی چھال کا تکیہ لگائے چٹائی پر بیٹھا درویش نظر آتا ہے۔ ٭ عین اس وقت جب اطراف عرب سے آآکر اس کے صحن مسجد میں مال واسباب کا انبار لگا ہوتا ہے۔ اس کے گھر میں فاقہ کی تیاری ہورہی ہے۔ ٭ عین اس عہد میں جب لڑائیوں کے قید ی[3] مسلمانوں کے گھروں میں لونڈی غلام بن کر بھیجے جارہے ہیں۔ فاطمہ رضی الله عنہا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ہاتھوں کے چھالے اور کندھوں کے نشان دکھا کر جو چکی پیسنے اور مشکیزہ بھر کر لانے کی وجہ سے پڑ گئے تھے۔ ایک غلام کی خواہش کرتی ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں واپس موڑ دیتے ہیں۔ ٭ عین اس وقت جب آدھا عرب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر نگین آچکا تھا حضرت عمررضی اللہ عنہ دربار نبوت میں حاضر ہوکر کاشانہ نبوت[4] کا جائزہ لیتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھر دری چٹائی پر آرام فرمارہے ہیں۔ جسم مبارک پر نشان پڑ گئے ہیں۔ ایک طرف مٹھی بھر جو رکھے ہیں اور دوسری طرف پانی کا مشکیزہ لٹک رہا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر آبدیدہ ہوجاتے ہیں۔ سبب دریافت ہوتا ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں’’ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس سے بڑھ کر رونے کا اور کیا موقع میسر ہوگا۔ قیصر وکسریٰ باغ وبہار کے مزے لوٹ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس حالت میں ہیں ‘‘۔ ارشاد ہوتا ہے۔ ’’عمر! کیا